Saturday 15 August 2015

بےروزگاری کی وجوہات


بےروزگاری کسی بھی معاشرے کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہیں. خاص کر جب تعلیم یافتہ طبقہ بےروزگار ہوتی ہیں. چونکہ پاکستان ابھی تک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل نہ ہوسکا.اسلیئے یہاں پر بے روزگاری بھی بہت زیادہ ہے. سرکاری نوکری تو صرف قسمت والے کو ہی ملتی ہے.جو چیز بےروزگاری بہت حد تک کم کر سکتی ہے، وہ ہے، نئ فیکٹریاں بنانا،کارخانے لگانا،مختلف پروجیکٹس شروع کرنا وغیره. لیکن پاکستان کے کچھ بڑے شہروں کے علاوه جہاں پر فیکٹریاں ہیں، وہاں بےروزگاری کم ہے. باقی تو سارے ملک کا خال کسی سےچپا نہیں ہیں.
     پاکستان کی ترقی کے لیے ضروری ہےکہ پہلے بےروزگاری کو کم کیا جائے اور یہ تب ہوگا جب کرپشن کنٹرول ہو جائے. اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ پھر بھرتیاں میرٹ پر ہوگیں.جو جس پوسٹ کا صحیح معنوں میں قابل ہوگا وہ اُس کو مل جائے گا. پھر وہ محکمه ضرور ترقی کرےگا جس میں قابل لوگ ہوں. مگر ہمارے سیاستدان بھی بد عنوان ہیِں جو اپنے اختیارات کا ناجائز استمال کرتے ہیں اور اس کے بعد رہی سہی کسر ہمارے سرکاری محکمے پورے کر دیتے ہیں جہاں غبن، رشوت اور بدعنوانی عام ہیں.جب تک ہمارے ملک سے چور بازاری اور بلیک مارکیٹنگ کا صحیح معنوں میں خاتمہ نہیں ہوگا تب تک ہمارا سارا نظام اور معشیت لڑکھڑاتی رہےگی.
     کسی ملک کی ترقی کا فارمولا اتنا مشکل نہیں ہے بس لوگ مخلص ہونے چاہئے.جو کہ بدقسمتی سے پاکستان میں مخلص لوگوں کی بہت کمی ہے.ایک معمولی درجے کے نوکر سے لیکر اعلٰی درجے پر فائز افیسر تک سب کرپٹ ہوتے  ہے. جس کو جتنا موقع ملتا ہے، کرپشن کا بازار گرم کر لیتا ہے. یہی وجہ ہیں کہ آج بہت سے قابل انسان روزگار کی تلاش میں  گھومتے پھرتے ہے. مگر روزگار نہیں ملتا،  کیونکہ نہ تو اُس کا سفارش کرنے والا کوئی ہوتا ہے اور نہ ہی اسکے پاس اتنے پیسے ہوتے ہیں کہ اُس پر کسی سے سرکاری نوکری خرید سکے.
     آخر میں ہم حکومت سے یہ درخواست کرتے ہے کہ نہ صرف بڑے شہروں میں بلکہ ہر جگہ یکساں  روزگار کے مواقع فراهم کریں، کیونکہ پاکستان کے لوگ بہت قابل ہیں، اگر کمی ہے تو صِرف موقع  نہ ملنے کی. اس وجہ سے بہت ٹیلینٹ ضائع ہو راھا ہے..
    

     

Friday 10 July 2015

موت ایک خقیقت

موت ایک ایسی دردناک خقیقت ہے جس پر کوئی بھی انسان سوچنا ہی نہیں چاہتا. ایک مسلمان ہونے کے ناتے ھمیں چاہیے کہ ہر روز اپنے موت کو یاد رکھے. قبر کو ذھن میں لائے کہ ایک نہ ایک روز مھجے بھی قبر میں جانا ھوگا.تو پھر وہاں میرے اعمال کےعلاوہ اور کچھ نہیں ھوگا.اس دنیا میں تو ہم بہت مختصر وقت کیلئے آئے هے. جو زندگی کی اصل خقیقت ہے وہ ہم سے دنیاوی خواہشات کے پیچھے چُپ گئ هے. اگر ہم سوچ کر لے کہ جو لوگ آج زندہ ہےـ سو سال کے بعد کوئی بھی نہیں ھوگا.توکیوں ھم اِتنی لمبی لمبی خواہشات رکھتے ھے جو پورا ہونے کا نام نہیں لے رہےہیں.

Monday 6 July 2015

محبت یا پیسہ

محبت یا پیسہ


فیس بک پہ اکثر دیکھا ھے ایک سوال پوچھا جاتا ھے ۔ آپ کا انتخاب کیا ھے ۔۔ محبت یا پیسہ 
تو اکثریت کا جواب ھوتا ھے محبت -------
اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو  محبت کے بنا چار دن  زندہ رہ سکتے ھیں مگر پیسے کے بنا نہیں 
محبت کے بنا زندگی بے رنگ ھوتی ھے 
اور پیسے کے بنا زندگی ختم ھوتے دیکھا ھے 
اپنے بچوں کا سودا کرتے دیکھا ھے 
اپنے اعضاء بیچتے دیکھا ھے 
بھائ بھائ کا دشمن بن سکتا ھے 
ماں باپ قتل کر دیا جاتا ھے 
میاں بیوی کی محبت پیسے کی کمی سے دن رات کی لڑائ جھگڑے میں بدل جاتی ھے 
پیسہ ھر وقت کی ضرورت رہا ھے 
زن زر اور زمین کی اہمیت ھر علاقہ ۔ ہر زمانہ میں رہا ہے 
محبت جو کام نہیں کروا سکتی وہ پیسہ کروا دیتا ھے 
دین ایمان کا سودا ضمیر کا سودا 
اگر پیٹ بھر کر کھانے کو ہو تو 
پہلا انتخاب محبت ھو گی 
بھوک سے مرتے ھوئے انسان سے پوچھیئے 
ایک باپ کے سامنے اس کا جوان بیٹا  اس لیے مر رھا ھے کہ اس کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں
اس سے پوچھیں  محبت چائیے تو
وہ آپ کا پاگل سمجھے گا ۔
  اگر آپ کو اس سے محبت ھے تو آپ کا فرض ھے اس کی ضرورت  کو پورا کریں 
اسے مشکل  سے نکلنے کے لیے مدد کریں 
سننےاور پڑھنے میں کتابی  فلمی باتیں بہت اچھی لگتی ہیں ہمارا انتخاب محبت ہے ہمیں دنیا کا لالچ نہیں 
مگر دنیا کے ساتھ محبت کے 
محبت کے ساتھ دنیا ھے 
بنا محبت دنیا نہیں اور دنیا کے بنا محبت نہیں 

------------------------------------
ایک چھوٹی سی خبر پڑھی تھی ۔ ایک عورت نے خودکشی کر کی ڈھائ برس کے بچے کے ساتھ
ہاں  ھمارے لیے چھوٹی سی خبر  ۔ بڑی بڑی باتیں ھوتی رھتی ھیں 
مگر پھر بھی 
کبھی چھوٹی چھوٹی سی باتیں بہت اثر کرتی ہیں

یاد

لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے
کہ
اُنہیں یاد رکھنا نہیں پڑتا
وہ یاد رہ جاتے ہیں

علی رضی اللہ عنہ

Saturday 4 July 2015

کرنیں

 تخلیقِ آدم سے پہلے ہماری ارواح کا پہلا عمل۔۔۔ لفظ پر ایمان ہی ہمارا اصل ایمان ہے۔ 
٭زندگی ہر پل کچھ سیکھنے کے عمل کا نام ہی تو ہے اور ہم سب ہی ایک دوسرے سے بہت کچھ پاتے ہیں۔ شرط صرف ایک کہ بےغرض دیں تو بےکراں ملے گا۔ 
٭"روحانیت" ۔۔۔پتہ نہیں کیا چیز ہے۔۔۔۔بس یہ جانو کہ لوگ چلے جاتے ہیں لیکن سفر نہیں رکتا۔۔۔ ایک کے بعد ایک ان کی جگہ لے لیتا ہے۔۔۔ جیسے ایک لہر کے بعد دوسری ۔
میں خود بھی نہیں جانتی یہ سب کیا ہے ؟ بس جب خود بخود ہی ہوا چلنے لگے بنا کوئی تردد کیے..کوئی چاہ کیے تو اس کو سمجھنے ۔۔۔ ادب کرنے اور جذب کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔
٭" بیسٹ سیلر" .... کبھی خود اپنی قیمت نہیں لگاتا اور نہ ہی اس کا تعین کرتا ہے یہ دیکھنے والی آنکھ اور جذب کرنے والی نگاہ کا کمال ہے کہ وہ قطرے میں سمندر دیکھ لیتی ہے تو کبھی سمندر میں گہر پا لیتی ہے۔
 ٭"راہ بر"۔۔۔۔کچھ لوگ راہ دیکھتے چلتے ہیں۔۔۔کچھ راہ دکھاتے۔۔۔کچھ ہمیں اپنے جیسا بنا لیتے ہیں تو کچھ ہمیں خود سے بھی بیگانہ کر دیتے ہیں۔کچھ ہماری ضرورت بن جاتے ہیں اور کچھ ضرورت کی تکمیل۔ 
 ٭"بہت ہو گئی زندگی" اب کیا کیسٹ کو بار بار ریواینڈ کر کے دیکھنا۔۔۔عجیب لاجک ہے محبت اور ہوس کی۔۔۔پہلا لمس ہی آخری رہے تو یاد میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ورنہ بار بار کی یاددہانی سے بھی سیری کی کیفیت نہیں ملتی۔ 
٭"یاد"۔۔۔محبتوں کے رشتے ہمیشہ پاس ہی رہتے ہیں۔ لفظ کی صورت ان کا احساس محفوظ کر سکیں تو ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے کے بعد بھی ان کی قربت کی خوشبو آس پاس ہی مہکتی ملتی ہے۔
٭"خواب"۔۔۔۔بند آنکھ کے کینوس پر ماضی کی یادوں،حال کی سوچوں اور مستقبل کے اندیشوں سے اُبھرتی ہوئی ایک تجریدی تصویرکی مانند ہوتے ہیں۔ کوئی ماہرِفن ہی انہیں بہتر جان سکتاہے۔لیکن اپنےخواب کی پہچان ہی اصل فنکاری ہے۔ جو حقیقت سے آگہی کے سفر میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
٭محبتیں اور زندگی بخش لمحے ہمیں بنا کسی خاص منصوبہ بندی کے ہی توملتے ہیں قسمت ساتھ دے تو پل میں چھو کر نہال کر دیتے ہیں ورنہ لاحاصل انتظار کی تشنگی چھوڑ جاتے ہیں۔
٭خودی"۔۔۔خود ترسی کے اندھیروں اور خود پرستی کی چکاچوند میں بھٹکنے والا خدا شناسی کی رفعتوں سے ہم کلامی کا شرف کھو دیتا ہے۔خود کو سمجھنے کے لیے ذرا دور جانا پڑتا ہے... اپنے اندر سے باہر نکل کر اپنی تلاش کی جاتی ہے۔کاش دُنیا کے رازوں اور اس کی بلندوبالا چوٹیوں کو سر کرنے کے جنون اور دوڑ میں شامل ہونے والے جان سکیں کہ اُن کے اندر ابھی بہت سی ان چھوئی دنیائیں تسخیر کے لمس کی منتظر ہیں۔
٭ "ڈر"۔۔۔۔ڈر اور محبت لازم وملزوم ہیں۔ کبھی محبت ڈر کی شدت کے سامنے اپنا آپ دان کر دیتی ہے تو کبھی  ڈر محبت کی کوکھ  سے جنم لیتا ہے۔ ڈر بنیادی طور پر محبت کی تخلیق ہے۔۔۔وہ تخلیق جو منہ زور خواہشوں اور ناآسودہ جذبوں کے ملاپ سے تقدیر کے مہیب اندھیروں میں رہتے ہوئے یوں چپکے سے  محبت کی کوکھ میں  اُترتی ہے کہ جسم تو کیا روح بھی اِس انجان مہربان کی قربت سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ ڈر کا کرب دھیرے دھیرے محبت کے لمس سے رام ہوتا ہے۔۔۔لیکن یہ آسیب کی طرح  ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔ایک سائے کی مانند جو دکھتا تو ہے پر صرف دیکھنے والی آنکھ کو اور ۔۔۔دل کی آنکھ کبھی  اُسے خاطر میں نہیں لاتی ۔
٭ "انمول"۔۔۔ اس دنیا میں مفت میں کچھ بھی نہیں ملتا ۔ہر چیز کی قیمت ہے۔ہر احساس برائے فروخت ہے۔ جو جتنا قیمتی  ہے اُتنا ہی نازک بھی ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کا بنیادی زندگی بخش تُحفہ (آکسیجن) "مفت" ہی تو ملتا ہے۔ باقی سب تو خوبصورت ریپر میں لپٹے روگ ہیں جن کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔۔۔ہر احساس کی قیمت ہے اور بےغرض احساس کی قیمت دل کے سکون کے سوا کچھ بھی نہیں۔
 ٭نادر و نایاب کوئی بھی رشتہ،تعلق چیز یا کائنات کے مظاہر ہی کیوں نہ ہوں ۔ہمارے ماننےیا سراہنے سے اُسے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا۔ فرق صرف ہمیں پڑتا ہے کہ ہم نے اپنے حیات میں اُس کو نہیں پہچانا اور یہ سفر رائیگاں ہی گیا۔ زندگی میں  ہر قیمتی  احساس ہرنادر لمحہ ہمیں بنا کسی ارادے۔۔۔ بنا کسی خواہش۔۔۔بنا کسی کوشش اور بنا کسی استحقاق کے اچانک ملتا ہے۔ پل میں مالا مال کر کے نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔یا دل میں جذب ہو جاتا ہے۔اور ہمارے ہاتھ میں صرف بےنام اداسی کی نمی رہ جاتی ہے۔
 ٭زندگی،بارش اور سفر۔۔۔
 زندگی اگر ہائی وے پر محبت کی منزل کی جانب دھیرے دھیرے سفر کرتے۔۔۔آرام دہ گاڑی کی پچھلی نشست پر پسندیدہ  میوزک سنتے۔۔بارش کی رم جھم دیکھتے یا پھربارش کے بعد پہلی رات کی دلہن کی طرح شفاف مناظر کو محسوس کرتے گزرتی تو کتنی خوابناک اور حسین ہوتی۔ لیکن !!! زندگی تو نامعلوم  بےرحم  اور بےمہر منزل کی طرف سرپٹ دوڑتے۔۔۔ اونچے نیچے راستوں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر۔۔۔غیرمحتاط ڈرائیور کے ساتھ۔۔۔فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر غیرارادی طور پر لایعنی"بریکیں"لگانے کا نام ہے۔۔۔۔طوفانی بارش میں لاٹھی ٹیکےلاچار بوڑھے کی بارش سے بچنے کی ناکام کوشش ہے تو کہیں اس "حسین" موسم کے صدقے دیہاڑی ماری جانے کی دہائی ہے۔. ۔۔۔۔۔
٭ہمسفر۔۔۔زندگی پہلی سانس سے آخری سانس تک کی کہانی ہے۔اور اس دوران کہیں بھی کوئی بھی حرف آخر نہیں۔زندگی کے سفر میں ہمسفر قدم قدم پر ملتے اور بچھڑتے جاتے ہیں۔ ہمیں نہ ملنے کا احساس ہوتا ہے اور نا ہی بچھڑنے کا۔ بس کبھی ایسے۔۔۔۔ جیسے سانس آئے تو بےنام تازگی اور نہ آئے تو اندر ہی اندر گھٹن بڑھتی جائے۔"ہمسفر" محض کاغذ کے رشتے سے بننے والےبندھن کا نام نہیں بلکہ یہ ہر اس شے کے احساس کا نام ہے جو ہماری زندگی کی گاڑی کو رواں رکھنے میں معاون  ثابت ہوتا ہے۔ایک لفظ سلیپنگ پارٹنر سنا ہو گا جو بزنس کے حوالے سے ہوتا ہے لیکن ایک عام یا خاص تعلق میں بھی استعمال کر لیں تو یہی معنی دیتا ہے۔ نام۔مقام۔جنس  اور وقت کے طےشدہ فاصلوں سے قطع نظر ایک سلیپنگ دوست بھی ہو سکتا ہے۔۔۔جس سے ہم زندگی میں پہلی بار ملیں تو یوں لگے جیسے پہلی بار سے پہلے بھی بہت دفعہ مل چکے ہیں اور پھر چند لمحوں میں قربتوں کے وہ مرحلے طے ہو جائیں جہاں برسوں ساتھ رہنے والے بھی نہیں پہنچ پاتے۔اور اہم بات یہ ہے کہ ایسے دوست اگر پہلی بار کے بعد کبھی نہ مل پائیں پھر بھی ان کا احساس ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔ اور انہیں قریب پاتا ہے۔
٭"رشتے"۔۔۔ رشتوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ انہیں ہر حال میں استوار رکھنا پڑتا ہے۔تعلق صرف خاموشی سے بنا کسی طلب کے بس نبھائے جاتے ہیں۔رشتوں  اور تعلقات کو بغیر چھان پھٹک کیے۔۔بنا کسی پیمانے کے بس چلنے دیناچاہئیے.. وقت خود اپنے حساب سے سب کی پرکھ کر دیتا ہے.. بس یہی ہمارا اختیار ہے اگر سمجھیں۔
٭ "نگاہ"۔۔۔ سارا کمال نگاہ کا ہے کہ کس رنگ میں کون سا منظر اُس کے سامنے اُترتا ہے۔ ہر متنفس ایک جیسا ہو کر بھی اپنی الگ پہچان الگ شناخت رکھتا ہے۔اصل خوب صورتی  بھی ہماری نگاہ میں ہے کہ وہ کس منظر کو کس رنگ میں دیکھتی ہے۔آنکھ کھلی ہو تو ہر جگہ اللہ کی رحمت کی قربت محسوس کی جا سکتی ہےماننے والوں کے لیے ہر منظر میں نشانیاں ہیں۔لیکن  شک کرنے والوں کے لیےراہ میں دلائل کے پہاڑ حائل ہیں تو کہیں شک کی کھائیاں۔جیسے عام طور پر سوچا جاتا ہے کہ ہر چیز پہلے سے طے شدہ ہے۔ قسمت یا تقدیر میں سب لکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پہلا قدم اٹھانا انسان کے اختیار میں ہے دوسرا نہیں۔ اور دوسرا صرف اللہ کا فضل ہے۔ اور اسی دعا کی تلقین بھی کی گئی ہے۔ 
٭ "المیہ"۔۔۔بحثیت قوم ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ایک پل میں کسی کو ہیرو تو کبھی زیرو بنا دیتے ہیں۔ شہید یا مردہ اور مومن و کافر کے مخمصے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کرتے ہوئے۔۔۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم کس صف میں کھڑے ہوں گے جب وقت کی بال ہمارے کورٹ میں آئے گی۔ہم تو ایسی زندہ لاشیں بن چکے ہیں جن کی بس سانس کا زیروبم ہی زندگی کی علامت ہے۔اجتماعی سے انفرادی سطح تک ہر جگہ اور معاشرتی سے جذباتی استحصال تک بقول شاعر۔۔۔۔"ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں۔ 
٭چابی۔۔۔ چاہے دل کی ہو یا در کی ایک بارکسی کے حوالے کر دی پھر کسی صورت واپس نہیں لی جا سکتی کہ وہ محض ایک بار داخل ہو کر بھی اندر کا سب حال جان لیتا ہے۔ روٹھنا خفا ہونا یا پھر دھوکا کھاجانا صرف ہماری ہی خطا اور بےخبری  کے سوا کچھ  نہیں۔ 
٭بےخبری ۔۔۔بظاہر ہم لوگوں کے رویوں کے خوف یا اللہ کی پکڑ سے ڈرتے ہوئے زندگی کو جھوٹی اطاعت کا دھوکہ دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنے دل کی بات بھی نہیں سنتے اور نہ ہی مانتے ہیں جس پر سچ الہام ہوتا ہے۔اللہ ہمیں ان کی صف میں شامل ہونے سے پناہ دے جن کے قلوب پر مہر لگ جاتی ہے۔ آمین
٭"حال" پر صاحب حال سے بات اس وقت کرنا چاییے جب وہ ماضی بن جائےلیکن! اپنے آپ کو ہمیشہ حال کے آئینے میں سمجھنا اور جانچنا ہی اصل حقیقت ہے۔

Monday 29 June 2015

عورتوں کی منڈی

رات کے کھانے کی بات ہوئی تو میاں صاحب نے اپنے ایک دوست کے کہنے پر شہرِ لاہور کے ایک معروف ریستوان '' انداز'' میں بکنگ کروائی۔میرے استفسار پر بتایا کہ یہ "ہیرا منڈی" میں واقع ہے۔ مجھے ہیرا منڈی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ فون پر جب میاں صاحب بات کر رہے تھے تو میں نے یہی سوچا کہ جیسے سبزی منڈی ہوتی ہے ویسے ہی ہیروں کی کوئی منڈی ہو گی صرافہ بازار کی طرز پر۔ خیر ہم لوگ جی پی ایس زندہ آباد کا نعرہ لگاتے ہوئے جس راہ سے گزرے وہاں بازاروں کی لمبی قطار چلی جا رہی تھی جسے دیکھ کر فیصل آباد کے آٹھ بازار یاد آ گئے۔ چاروں طرف رش ہی رش تھا اور بار بار ٹریفک جام ہو رہا تھا۔ مگر ریسٹورنٹ میں قدم رکھتے ہی جب میاں صاحب نے اس علاقے اور اس ریستوران کی کہانی بتائی تو دل کا حال عجیب سا ہو گیا۔وہاں جا کر پتا چلا وہ کوئی سبزی منڈی جیسی منڈی نہیں تھی وہ تو ''عورتوں کی منڈی'' تھی
ریسٹورنٹ میں بیٹھنے کا انتظام ایک عمارت کی چھت پر تھا جہاں سے دیکھنے پر بادشاہی مسجد کا ایک گنبد تو بالکل اپنے قدموں تلے نظر آتا ہے۔ عمارت کی نچلی منزل پر ہر جگہ کو کسی رقص گاہ کے سے انداز میں ویسا ہی سجا کر میوزیم کا نام دے دیا گیا تھا۔ اندھیرے کمرے، تنگ سی بل کھاتی وہ سیڑھیاں، دیواروں پر آویزاں رقاصاؤں، سازندوں اور مونچھوں کو تاؤ دیتے تماشائیوں کی وہ تصاویر، مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کوئی کہانی پڑھتے پڑھتے اس کہانی کے اندر داخل ہو گئی ہوں۔ یہ سب میں نے کہانیوں میں ہی پڑھا تھا۔ میں افسانے اورکہانیاں پڑھ کر جب بھی یہ سوچتی تھی کہ کیا ایسا حقیقت کی دنیا میں بھی ہوتا ہے تو اس سے آگے سوچنا ہی ترک کر دیتی تھی۔ بہت سی حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہمارا ذہن تو تسلیم کر لیتا ہے مگر دل ان سے انکاری ہی رہتا ہے۔

لیکن وہ تو ایسی تلخ حقیقت تھی جسے جھٹلانا ممکن نہیں تھا وہ میرے سامنے کی بات تھی۔ میں خود اس لمحے میں موجود تھی اور یہ وقت کا کڑوا ترین سچ تھا کہ ایک عورت اس بازار میں بیٹھی اس کشمش میں تھی کہ یہ عورت کا بازار ہے؟ یہاں عورت کی نمائش لگائی جاتی ہے! یہاں عورت کو بیچا جاتا ہے!

میں جتنی دیر وہاں رہی گم سم سی ہی رہی، میاں صاحب کو گلہ تھا کہ بول نہیں رہی ہوں، لیکن میری تو حالت ہی عجیب ہو گئی تھی۔ ایک عورت ہو کر میرے ان عورتوں کے لیے کیا جذبات تھے، میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔

مجھے سڑک پر کھڑے بھکاریوں پر بھی ترس آتا تھا مگر اس دن وہاں سے واپسی پر اس محلے کی کھڑکیوں سے نظر آتی ان عورتوں پر بے تحاشا ترس آیا اور گلی کے دوسری طرف بینچ پر سج دھج کر اپنی نمائش لگا کر اپنی قیمت لگنے کے انتظار میں بیٹھی وہ عورت مجھے دنیا کی مظلوم ترین مخلوق لگی جیسے اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے جانے کس مجبوری نے اس گند میں لا پھینکا، مجھے اس لمحے وہاں بیٹھی عورت کو دیکھ کر اپنے عورت ہونے پر دکھ ہوا، میں اکیلی اپنی گاڑی سے دو قدم دور اس عورت کو دیکھتے ہوئے کہیں کھو سی گئی کہ راہ چلتے ایک شخص نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور دور جاتے مجھے اس کی نظروں کی تپش خود پر محسوس ہوتی رہی، اگر ایک قتل کرنا اسلام میں جائز ہوتا تو میں اس شخص کا قتل کرنے میں ذرا سی دیر نا لگاتی، اتنے میں میاں صاحب مجھے تلاش کرتے کرتے میرے پیچھے آگئے اور کہا:

تمھیں اکیلے اس طرف نہیں آنا چاہیے تھا۔

مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا اس لیے چپ رہی، نہ اعتراف کیا نہ اعتراض۔

مرد کے بغیر عورت کی زندگی کیا ہے؟ یہ بات مجھے شادی کے بعد سمجھ میں آ گئی تھی مگرعورتوں کی منڈی جا کے تو ایسی سمجھ میں آئی کہ اب ساری زندگی نہیں بھول پاؤں گی۔

قرآن میں پڑھا تھا کہ
وتعز من تشاء و تذل من تشاء

پر اس دن مجھے لگا کہ عورت کی عزت اور ذلت کا دارومدار مرد پر ہوتا ہے وہ جسے چاہے اپنے گھر کی عزت بنائے جسے چاہے طوائف۔

مرد مرد ہوتا ہے، 'مرد ' کسی کا شوہر کسی کا بھائی کسی کا بیٹا اور کسی کا تماشائی۔۔۔

انہی سوچوں میں غلطاں، واپس اپنی قیام گاہ آئے اور آتے ہی دل چاہا کہ آنکھیں بند کروں اور سو جاؤں صبح اٹھوں تو خواب سمجھ کر سب کچھ بھول جاؤں مگر آج اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی وہ مناظر اور ان کی تکلیفیں اتنی ہی تازہ ہیں۔
ناعمہ عزیز

www.Facebook.com/azebamandi

میرا محسن


دو اجنبی طائف کی گلیوں اور بازاروں میں ایک ایک دروازے پر دستک دیتے ایک ایک دل کی دنیا کو بسانے کی کوشش میں صبح سے شام کر گزرتے ہیں لیکن کوئی ایک بھی نہیں جو ان کی دعوت پہ لبیک کہے کوئی ایک بھی نہیں جو ان کی بات سننے پہ آمادہ ہو، کوئی ایک بھی نہیں جو ان کی دعوت کو اپنے دل میں جگہ دینے والا ہو۔دعوت کو سننا اور اسے قبول کرنا تو درکنار انہوں نے تو مذاق اور ٹھٹھے کی بھی انتہا کردی کوئی کہتا ہے اچھا تم کو نبی ﷺ بنا کر بھیجا ہے اللہ میاں کو کوئی اور نہیں ملا تھا کہ جس کو نبی بنا کر بھیجتا طنز کے کیسے کیسے نشتر اور تیر تھے جو ان پر چلائے نہیں گئے لیکن پھراسی پرہی بس نہیں کیا گیا طعن وتشنیع اور طنزومزاح کے تیروں سے دل تو زخمی تھا ہی کہ واپس لوٹتی اس عظیم ہستیﷺ اور ان کے ساتھی کے پیچھے گلی کے بچوں اورآوارہ لڑکوں کو لگا دیا اور نتیجتاً اتنا پتھراؤ آپﷺ پر کیا جاتا ہے ،اتنی کنکریاں ماری جاتی ہیں کہ جسمِ اطہر سے خون نکل نکل کر نعلین مبارک میں جم جاتا ہے اور اس حال میں آپﷺ ایک درخت کے نیچے سستانے کو ٹھہرتے ہیں کہ جبریل امین علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اپنے ساتھ پہاڑوں کے فرشتے کو لایا ہوں اگر آپﷺ حکم کریں تو اس بستی کے گرد ان دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملا کر اس کو تہس نہس کردےاس لئے کہ آج آسمانوں پر اللہ رب العزت بھی بڑا غضبناک ہے کہ اس کے محبوب بندے کو یوں ستایا گیا ہے یہی نہیں بلکہ پتھروں سے لہو لہان کرکے خالی ہاتھ لوٹایا گیا ہے بس آپ ایک اشارہ کیجئے کہ اس بستی کورہتی دنیا تک کیلئے عبرت کا نشان بنا دیا جائے، کس قدر سنہری پیشکش ،ابھی چند لمحوں پہلے ہی جن لوگوں نے ظلم کی انتہا کر دی خون میں نہلا دیا، پاگل اور مجنوں کہا ان سے بدلہ لینے کا موقع ہاتھ آگیا تھا لیکن آپ ﷺ جبرئیل امین علیہ السلام کی زبانی اس پیشکش کو سنتے ہیں تو فرماتے ہیں نہیں جبرئیل یہ نہیں تو ان کے بعد والے ایمان لے آئیں گے، وہ نہیں تو ان کی آئندہ نسلیں ایمان لے آئیں گی ان کی نسلوں میں کوئی تو ہوگا کہ جو ان راہوں پہ چلے گا،  یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آج انہیں فنا کے گھاٹ اتار کے مستقبل کے متعلق کوئی امید قائم کی جاسکے،بلاشبہ ایسے الفاظ تو کوئی ایسی ہی ہستی کہہ سکتی ہے جورحمۃاللعالمین ہوجس کے دل ودامغ میں بس انسانوں کی خیر خواہی ہی پیشِ نظر ہو۔ نبی اکرم ﷺ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام سے یہ بات کہتے ہیں اور پھر ضبط کا دامن ٹوٹ جاتا ہے اور سجدے میں گر جاتے ہیں اور فرماتے ہیں پروردگار! یہ تو نے مجھے کن کے حوالے کر دیا جو میری بات ہی نہیں سنتے ، میری بات کو دل میں جگہ ہی نہیں دیتے، لیکن اس گلے اور شکوے کے بعد فرماتے ہیں پروردگار! اگر تو اسی پر راضی اور خوش ہے تو میں بھی اس پر راضی ہوںلاکھوں ، کروڑوں اور اربوں درودو سلام نبی مہربان ﷺ کی بصیرت پر کہ "یہ لوگ نہیں تو ان کے بعد آنے والے وہ نہیں تو ان کی آئندہ نسلیں تو ان راہوں پہ چلیں گی" کبھی آپ نے سوچا یہ میں اور آپ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور نبی ﷺ کے نام کا کلمہ پڑھتے ہیں یہ نبی ﷺ کے اسی صبر اور رحمۃاللعالمین ہونے کا نتیجہ ہے، وہ جو نبیﷺ نے فرمایا تھا "یہ لوگ نہیں تو ان کے بعد آنے والے وہ نہیں تو ان کی آئندہ نسلیں تو ان راہوں پہ چلیں گی" گزرتے وقت نے ثابت کیا کہ انہی اہلِ طائف کی بدولت اسلام مجھ تک اور آپ تک پہنچا ہجرتِ مدینہ کے 92 برس بعد 10 رمضان المبارک 92 ہجری میں محمد بن قاسم ایک مسلمان بیٹی کی پکار پرسندھ کے راستے برصغیر میں داخل ہی نہیں ہوا بلکہ اسلام کی ٹھنڈی ہوائیں بھی اپنے ساتھ لایا لاکھوں درودوسلام حضرت محمد مصطفٰی ﷺ پر جن کے نعلین بارک خون سے لت پت ہوئے اور ان کی اس قربانی کے نتیجے میں اہلِ طائف کی اولاد میں سے محمد بن قاسم ،اسلام کا داعی بن کے پورے برصغیر کی تاریک فضاؤں کو اسلام کی روشنی سے منور کر گیابلاشبہ وہ میرا محسن ہے .

Wednesday 24 June 2015

True....

سوچ آدمی کو انتہائی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہے
اور
پستی کی گہرائیوں میں بھی پہنچا سکتی ہے
سوچ
درست ہو تو دُشمن بھی دوست بن سکتا ہے
اور
بیمار ہو تو اچھی چیز بھی بُری لگتی ہے
سوچ ایسی نازک چیز ہے جس کے بیمار ہو جانے کا بہت زیادہ خدشہ ہوتا ہے.