Monday 29 June 2015

عورتوں کی منڈی

رات کے کھانے کی بات ہوئی تو میاں صاحب نے اپنے ایک دوست کے کہنے پر شہرِ لاہور کے ایک معروف ریستوان '' انداز'' میں بکنگ کروائی۔میرے استفسار پر بتایا کہ یہ "ہیرا منڈی" میں واقع ہے۔ مجھے ہیرا منڈی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ فون پر جب میاں صاحب بات کر رہے تھے تو میں نے یہی سوچا کہ جیسے سبزی منڈی ہوتی ہے ویسے ہی ہیروں کی کوئی منڈی ہو گی صرافہ بازار کی طرز پر۔ خیر ہم لوگ جی پی ایس زندہ آباد کا نعرہ لگاتے ہوئے جس راہ سے گزرے وہاں بازاروں کی لمبی قطار چلی جا رہی تھی جسے دیکھ کر فیصل آباد کے آٹھ بازار یاد آ گئے۔ چاروں طرف رش ہی رش تھا اور بار بار ٹریفک جام ہو رہا تھا۔ مگر ریسٹورنٹ میں قدم رکھتے ہی جب میاں صاحب نے اس علاقے اور اس ریستوران کی کہانی بتائی تو دل کا حال عجیب سا ہو گیا۔وہاں جا کر پتا چلا وہ کوئی سبزی منڈی جیسی منڈی نہیں تھی وہ تو ''عورتوں کی منڈی'' تھی
ریسٹورنٹ میں بیٹھنے کا انتظام ایک عمارت کی چھت پر تھا جہاں سے دیکھنے پر بادشاہی مسجد کا ایک گنبد تو بالکل اپنے قدموں تلے نظر آتا ہے۔ عمارت کی نچلی منزل پر ہر جگہ کو کسی رقص گاہ کے سے انداز میں ویسا ہی سجا کر میوزیم کا نام دے دیا گیا تھا۔ اندھیرے کمرے، تنگ سی بل کھاتی وہ سیڑھیاں، دیواروں پر آویزاں رقاصاؤں، سازندوں اور مونچھوں کو تاؤ دیتے تماشائیوں کی وہ تصاویر، مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کوئی کہانی پڑھتے پڑھتے اس کہانی کے اندر داخل ہو گئی ہوں۔ یہ سب میں نے کہانیوں میں ہی پڑھا تھا۔ میں افسانے اورکہانیاں پڑھ کر جب بھی یہ سوچتی تھی کہ کیا ایسا حقیقت کی دنیا میں بھی ہوتا ہے تو اس سے آگے سوچنا ہی ترک کر دیتی تھی۔ بہت سی حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہمارا ذہن تو تسلیم کر لیتا ہے مگر دل ان سے انکاری ہی رہتا ہے۔

لیکن وہ تو ایسی تلخ حقیقت تھی جسے جھٹلانا ممکن نہیں تھا وہ میرے سامنے کی بات تھی۔ میں خود اس لمحے میں موجود تھی اور یہ وقت کا کڑوا ترین سچ تھا کہ ایک عورت اس بازار میں بیٹھی اس کشمش میں تھی کہ یہ عورت کا بازار ہے؟ یہاں عورت کی نمائش لگائی جاتی ہے! یہاں عورت کو بیچا جاتا ہے!

میں جتنی دیر وہاں رہی گم سم سی ہی رہی، میاں صاحب کو گلہ تھا کہ بول نہیں رہی ہوں، لیکن میری تو حالت ہی عجیب ہو گئی تھی۔ ایک عورت ہو کر میرے ان عورتوں کے لیے کیا جذبات تھے، میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔

مجھے سڑک پر کھڑے بھکاریوں پر بھی ترس آتا تھا مگر اس دن وہاں سے واپسی پر اس محلے کی کھڑکیوں سے نظر آتی ان عورتوں پر بے تحاشا ترس آیا اور گلی کے دوسری طرف بینچ پر سج دھج کر اپنی نمائش لگا کر اپنی قیمت لگنے کے انتظار میں بیٹھی وہ عورت مجھے دنیا کی مظلوم ترین مخلوق لگی جیسے اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے جانے کس مجبوری نے اس گند میں لا پھینکا، مجھے اس لمحے وہاں بیٹھی عورت کو دیکھ کر اپنے عورت ہونے پر دکھ ہوا، میں اکیلی اپنی گاڑی سے دو قدم دور اس عورت کو دیکھتے ہوئے کہیں کھو سی گئی کہ راہ چلتے ایک شخص نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور دور جاتے مجھے اس کی نظروں کی تپش خود پر محسوس ہوتی رہی، اگر ایک قتل کرنا اسلام میں جائز ہوتا تو میں اس شخص کا قتل کرنے میں ذرا سی دیر نا لگاتی، اتنے میں میاں صاحب مجھے تلاش کرتے کرتے میرے پیچھے آگئے اور کہا:

تمھیں اکیلے اس طرف نہیں آنا چاہیے تھا۔

مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا اس لیے چپ رہی، نہ اعتراف کیا نہ اعتراض۔

مرد کے بغیر عورت کی زندگی کیا ہے؟ یہ بات مجھے شادی کے بعد سمجھ میں آ گئی تھی مگرعورتوں کی منڈی جا کے تو ایسی سمجھ میں آئی کہ اب ساری زندگی نہیں بھول پاؤں گی۔

قرآن میں پڑھا تھا کہ
وتعز من تشاء و تذل من تشاء

پر اس دن مجھے لگا کہ عورت کی عزت اور ذلت کا دارومدار مرد پر ہوتا ہے وہ جسے چاہے اپنے گھر کی عزت بنائے جسے چاہے طوائف۔

مرد مرد ہوتا ہے، 'مرد ' کسی کا شوہر کسی کا بھائی کسی کا بیٹا اور کسی کا تماشائی۔۔۔

انہی سوچوں میں غلطاں، واپس اپنی قیام گاہ آئے اور آتے ہی دل چاہا کہ آنکھیں بند کروں اور سو جاؤں صبح اٹھوں تو خواب سمجھ کر سب کچھ بھول جاؤں مگر آج اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی وہ مناظر اور ان کی تکلیفیں اتنی ہی تازہ ہیں۔
ناعمہ عزیز

www.Facebook.com/azebamandi

میرا محسن


دو اجنبی طائف کی گلیوں اور بازاروں میں ایک ایک دروازے پر دستک دیتے ایک ایک دل کی دنیا کو بسانے کی کوشش میں صبح سے شام کر گزرتے ہیں لیکن کوئی ایک بھی نہیں جو ان کی دعوت پہ لبیک کہے کوئی ایک بھی نہیں جو ان کی بات سننے پہ آمادہ ہو، کوئی ایک بھی نہیں جو ان کی دعوت کو اپنے دل میں جگہ دینے والا ہو۔دعوت کو سننا اور اسے قبول کرنا تو درکنار انہوں نے تو مذاق اور ٹھٹھے کی بھی انتہا کردی کوئی کہتا ہے اچھا تم کو نبی ﷺ بنا کر بھیجا ہے اللہ میاں کو کوئی اور نہیں ملا تھا کہ جس کو نبی بنا کر بھیجتا طنز کے کیسے کیسے نشتر اور تیر تھے جو ان پر چلائے نہیں گئے لیکن پھراسی پرہی بس نہیں کیا گیا طعن وتشنیع اور طنزومزاح کے تیروں سے دل تو زخمی تھا ہی کہ واپس لوٹتی اس عظیم ہستیﷺ اور ان کے ساتھی کے پیچھے گلی کے بچوں اورآوارہ لڑکوں کو لگا دیا اور نتیجتاً اتنا پتھراؤ آپﷺ پر کیا جاتا ہے ،اتنی کنکریاں ماری جاتی ہیں کہ جسمِ اطہر سے خون نکل نکل کر نعلین مبارک میں جم جاتا ہے اور اس حال میں آپﷺ ایک درخت کے نیچے سستانے کو ٹھہرتے ہیں کہ جبریل امین علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اپنے ساتھ پہاڑوں کے فرشتے کو لایا ہوں اگر آپﷺ حکم کریں تو اس بستی کے گرد ان دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملا کر اس کو تہس نہس کردےاس لئے کہ آج آسمانوں پر اللہ رب العزت بھی بڑا غضبناک ہے کہ اس کے محبوب بندے کو یوں ستایا گیا ہے یہی نہیں بلکہ پتھروں سے لہو لہان کرکے خالی ہاتھ لوٹایا گیا ہے بس آپ ایک اشارہ کیجئے کہ اس بستی کورہتی دنیا تک کیلئے عبرت کا نشان بنا دیا جائے، کس قدر سنہری پیشکش ،ابھی چند لمحوں پہلے ہی جن لوگوں نے ظلم کی انتہا کر دی خون میں نہلا دیا، پاگل اور مجنوں کہا ان سے بدلہ لینے کا موقع ہاتھ آگیا تھا لیکن آپ ﷺ جبرئیل امین علیہ السلام کی زبانی اس پیشکش کو سنتے ہیں تو فرماتے ہیں نہیں جبرئیل یہ نہیں تو ان کے بعد والے ایمان لے آئیں گے، وہ نہیں تو ان کی آئندہ نسلیں ایمان لے آئیں گی ان کی نسلوں میں کوئی تو ہوگا کہ جو ان راہوں پہ چلے گا،  یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آج انہیں فنا کے گھاٹ اتار کے مستقبل کے متعلق کوئی امید قائم کی جاسکے،بلاشبہ ایسے الفاظ تو کوئی ایسی ہی ہستی کہہ سکتی ہے جورحمۃاللعالمین ہوجس کے دل ودامغ میں بس انسانوں کی خیر خواہی ہی پیشِ نظر ہو۔ نبی اکرم ﷺ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام سے یہ بات کہتے ہیں اور پھر ضبط کا دامن ٹوٹ جاتا ہے اور سجدے میں گر جاتے ہیں اور فرماتے ہیں پروردگار! یہ تو نے مجھے کن کے حوالے کر دیا جو میری بات ہی نہیں سنتے ، میری بات کو دل میں جگہ ہی نہیں دیتے، لیکن اس گلے اور شکوے کے بعد فرماتے ہیں پروردگار! اگر تو اسی پر راضی اور خوش ہے تو میں بھی اس پر راضی ہوںلاکھوں ، کروڑوں اور اربوں درودو سلام نبی مہربان ﷺ کی بصیرت پر کہ "یہ لوگ نہیں تو ان کے بعد آنے والے وہ نہیں تو ان کی آئندہ نسلیں تو ان راہوں پہ چلیں گی" کبھی آپ نے سوچا یہ میں اور آپ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور نبی ﷺ کے نام کا کلمہ پڑھتے ہیں یہ نبی ﷺ کے اسی صبر اور رحمۃاللعالمین ہونے کا نتیجہ ہے، وہ جو نبیﷺ نے فرمایا تھا "یہ لوگ نہیں تو ان کے بعد آنے والے وہ نہیں تو ان کی آئندہ نسلیں تو ان راہوں پہ چلیں گی" گزرتے وقت نے ثابت کیا کہ انہی اہلِ طائف کی بدولت اسلام مجھ تک اور آپ تک پہنچا ہجرتِ مدینہ کے 92 برس بعد 10 رمضان المبارک 92 ہجری میں محمد بن قاسم ایک مسلمان بیٹی کی پکار پرسندھ کے راستے برصغیر میں داخل ہی نہیں ہوا بلکہ اسلام کی ٹھنڈی ہوائیں بھی اپنے ساتھ لایا لاکھوں درودوسلام حضرت محمد مصطفٰی ﷺ پر جن کے نعلین بارک خون سے لت پت ہوئے اور ان کی اس قربانی کے نتیجے میں اہلِ طائف کی اولاد میں سے محمد بن قاسم ،اسلام کا داعی بن کے پورے برصغیر کی تاریک فضاؤں کو اسلام کی روشنی سے منور کر گیابلاشبہ وہ میرا محسن ہے .

Wednesday 24 June 2015

True....

سوچ آدمی کو انتہائی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہے
اور
پستی کی گہرائیوں میں بھی پہنچا سکتی ہے
سوچ
درست ہو تو دُشمن بھی دوست بن سکتا ہے
اور
بیمار ہو تو اچھی چیز بھی بُری لگتی ہے
سوچ ایسی نازک چیز ہے جس کے بیمار ہو جانے کا بہت زیادہ خدشہ ہوتا ہے.

Wednesday 17 June 2015

Ramzan

اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو اور مجھے بھی اپنی خوشنودی کے مطابق رمضان المبارک کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مکمل عمل کا نام ہے ۔ اللہ ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے احتساب کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حِلم ۔ برداشت اور صبر کی عادت سے نوازے

Tuesday 9 June 2015

برما کے روہنجیا مسلمان کون؟

روہنجیا مسلمانوں کا ایک نسلی گروہ ہیں جو زیادہ تر میانمار یعنی برما میں رہتا ہے۔روہنجیاؤں سے 1982 میں برما کی شہریت چھین لی گئی اور بدھ مت کی اکثریت والے اس ملک میں ان کو جور و ستم کا سامنا رہتا ہے۔برمی ریاست انہیں بنگالی سمجھتی ہے اور بنگلہ دیش انہیں برمی کہتے ہیں اور وہ شہری آبادی سے دور بہت ہی بری حالت میں پرہجوم کیمپوں میں رہتے ہیں۔میانمار میں اور وہاں سے بھاگ کر سمندروں میں پھنسے ہوئے روہنجیاؤں کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے اس کے متعلق دکھائی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز بہت پریشان کن ہیں۔بغیر خوراک اور پانی کے سمندر میں کشتیوں پر بے یار و مددگار روہنجیاؤں کی بہت سی تصاویر تو اصلی ہیں لیکن بی بی سی ٹرینڈنگ کو معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے آن لائن پر دکھائی جانے والی اکثر تصاویر کسی اور تباہی اور کسی اور واقعے کی بھی ہیں۔برطانیہ میں مقیم روہنجیا مسلمانوں کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن اور بلاگر جمیلہ ہنان کہتی ہیں کہ ’ہم سب لوگوں کی تشویش کی قدر کرتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی ان تصاویر کو شیئر کرنے سے پہلے ان کی تصدیق کر لے۔‘انھوں نے بی بی سی ٹرینڈنگ کو بتایا کہ ’روہنجیا کے بہت سے المناک مناظر کی تصاویر حقیقی ہیں، اس لیے انھیں جعل سازی سے بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سب سے زیادہ المناک تصاویر حقیقی تصاویر ہیں۔‘برما میں اقلیت روہنجیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں وہ خاموش ہیں۔کئی دہائیوں سے لاکھوں روہنجیا مسلمان بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب برما کی ریاست رخائن میں بستے ہیں۔ اگرچہ ان کی درد بھری کہانی حال ہی میں منظرِ عام پر آئی ہے تاہم بہت عرصے سے نہ انھیں شہریت کا حق تھا اور نہ ہی آزادیِ نقل و حرکت کا۔ ان کے مسائل کوئی نئے نہیں۔اس بات پر بہت تنازع ہے کہ یہ لوگ وہاں پہنچے کیسے اور کہاں سے ان کا تعلق ہے۔تو چلیں ہم تاریخ کی پیچیدگی کو ایک طرف رکھ کر دیکھتے ہیں۔ صرف ایک انسانی سطح پر سوچا جائے تو مغربی برما میں تقریباً آٹھ لاکھ افراد کو بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں اور انھیں اپنی پیدائش کے سبب امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔وہ اپنی غربت اور بے بسی کی وجہ سے اکثر انسانی سمگلنگ کی تنظیموں کا نشانہ بنتے ہیں۔بحوالہ : بی بی سی اُردو اسی حوالے سے مجھے فیس بک پر ایک وڈیو موصول ہوئی جو کسی نے اپنے موبائل سے ریکارڈ کی ہے جو میں نے اپنےفیس بک اکاونٹ سے شیئر بھی کی تھی اور اپنے فیس بک پیجز "میرا بلاگ نون" اور" نون والقلم " سے بھی شیئر کی تھی جو بہت ڈھونڈنے کے بعد بھی نہیں مل رہی۔ مطلب اس کو بھی فیس بک سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس ویڈیو میں مسلمانوں کے گاؤں پر بدھ مت بلوائی حملہ کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں جو ایک گھر میں زبردستی گھس کر گھر کے مکینوں کو زدوکوب کرتے ہیں اور پھر اُن کو خنجروں، چاقوں اور بالوں سے مار مار کر ہلاک کردیتے ہیں۔ ان لوگوں کے بیچوں بیچ پیلے کپڑوں میں ملبوس ان کے بدھ مذہبی افراد بھی موجود ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اب یہ ویڈیو مجھے نہیں مل رہی۔burma-rohingya-muslim-massacre-myanmar-Urdu-Blog-Noons-www.noons.info-Naeem-Khan-naeemswat

Saturday 6 June 2015

ابتدائی طبی امداد

جب تک طبی مدد دستیاب نہ ہو ابتدائی طبی امداد کے درج ذیل اقدام صورت حال کو مزید بگاڑنے سے روک سکتے ہیں۔ والدین، دیکھ بھال کرنے والے دیگر افراد اور بڑے بچوں کو ابتدائی طبی امداد کے اقدام جاننے میں مدد دینی ،چاہئیے۔

1. جلنے پر ابتدائی طبی امداد: • اگر بچے کے کپڑوں میں آگ لگ جائے، تو بچے کو فوری طور پر ایک کمبل یا چادر میں لپیٹ لیں یا آگ بجھانے کے لئے زمین پر اس کے جسم کو رول کریں (کروٹیں دلائیں )۔ جلنے کے چھوٹے زخموں کے لئے جو اقدام کئے

2. جا سکتے ہیں وہ یہ ہیں: • جلے ہوئے حصے کو فوری طور پر ٹھنڈا کریں۔ بہت سارا ٹھنڈا اور صاف پانی استعمال کریں، جو درد اور سوجن کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ زخموں پر برف مت رکھیں ؛ ایسا کرنے سے جِلد مزید خراب ہو جائے گی۔ • ڈھیلی اسٹریلائز کی گئی گاز پٹی یا صاف کپڑے کے ساتھ زخم کو صاف اور خشک رکھیں۔ یہ عمل آبلوں والی جِلد کو تحفظ فراہم کرے گا۔ • آبلوں کو مت پھوڑیں کیوں کہ یہ زخمی حصے کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اگر آبلے کو پھوڑ دیا جائے، تو اس حصے میں انفیکشن کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ زخم پر مکھن یا کوئی مرہم نہ لگائیں ؛ ان کے لگانے سے زخم ٹھیک ہونے میں رکاوٹ پیدا ہو گی۔ • ایک معمولی زخم عام طور پر بغیر کسی مزید علاج کے ٹھیک ہو جاتا ہے۔

3. بڑے زخموں کے لئے جو جِلد کی تمام تہوں کو جلا دیتے ہیں فوری ہنگامی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ دیکھ بھال دستیاب نہ ہو یہ اقدام کئے جا سکتے ہیں۔ • جسم سے جلے ہوئے کپڑے مت ہٹائیں۔ اس بات کویقینی بنائیں کہ بچہ مزید کسی جلتے ہوئے یا کسی ایسے مواد کے قریب نہیں ہے جہاں جو سلگ رہا ہو یا اس بچے کو دھوئیں یا گرمی کا سامنا نہیں ہے۔ • کسی بڑے اورشدید جلے ہوئے زخموں کو ٹھنڈے پانی میں نہ ڈبوئیں، کیوں کہ ایسا کرنے سے بچے کو شاک (جھٹکا) لگ سکتا ہے۔ • اگر ممکن ہو، توجسم کے جلے ہوئے حصے یا حصوں کودل کی سطح سے اوپر اٹھائیں۔ • جلے ہوئے حصے کو کسی ٹھنڈے، گیلے تولیے یا کپڑے یا اسٹریلائزڈ پٹیوں سے ڈھیلا ڈھانپ دیں۔ • اگر بچہ بے ہوش ہو، تو اس بچے (یا بچی) کاجسم گرم رکھیں۔ بچے (یا بچی) کے جسم کو اس کے دونوں اطراف میں رول کریں (کروٹ دلائیں ) تاکہ اس کی زبان اس کے سانس لینے کے عمل میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ • سانس لینے کے عمل، حرکت اور کھانسی کی علامات کو چیک کریں۔ اگرایسی کوئی علامت موجود نہیں ہے، تو ’’سانس لینے میں مشکلات یا ڈوبنے کے بارے میں ابتدائی طبی امداد‘‘ کے تحت اقدام پر عمل کریں۔

4. ہڈی ٹوٹنے، چھل جانے یا رگڑیں لگنے کے بارے میں ابتدائی طبی امداد: • ایک ایسا بچہ جو حرکت کرنے کے قابل نہیں ہے یا شدید درد میں مبتلا ہے، ممکن ہے اس کی ہڈی ٹوٹ چکی ہو۔ زخمی حصے کو حرکت نہ دیں اور فوری طور پر طبی مدد حاصل کریں۔ • بری طرح چھل جانے یا رگڑوں کے لئے زخمی حصے کو ٹھنڈے پانی میں ڈبوئیں یا زخم پر 15منٹ کے لئے برف رکھیں۔ برف کو براہ راست جِلد پر نہ رکھیں ؛ برف اور جِلدکے درمیاں کپڑے کی تہہ کو استعمال کریں۔ برف یا پانی کو ہٹا دیں، 15منٹ انتظار کے بعد، اگر ضروری ہوتو، یہی عمل دہرائیں۔ یہ ٹھنڈک درد، سوجن اور رگڑوں کو ٹھیک کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔

5. کٹس اور زخموں کے بارے میں ابتدائی طبی امداد: معمولی کٹس اور زخموں کے لئے: • زخم کو صاف (یا ابلے ہوئے اور ٹھنڈے)پانی اورصابن سے صاف کریں۔ • زخم کے ارد گرد کی جِلد کو خشک کریں۔ • زخم کو کسی صاف کپڑے سے ڈھانپ دیں اور اس کے اوپر اسٹریلائز کی ہوئی پٹی رکھ دیں۔

6. شدید کٹس اور زخموں کے لئے: • اگر زخم میں کانچ کا کوئی ٹکڑا یا کوئی اور چیزپھنسی ہوئی ہے تو اسے مت نکالیں۔ ممکن ہے یہ خون کے مزید اخراج کو روک رہا ہو، اور اس کے ہٹانے سے زخم زیادہ خراب ہو نے کے امکانات ہوں۔ • اگر بچے کا خون بہت زیادہ بہہ رہا ہے، تو زخمی حصے کو چھاتی کی سطح سے اوپر رکھیں اور زخم (اگرکوئی چیزاس میں پھنسی ہوئی ہے تو اس کے نزدیکی حصے میں )کے خلاف تہہ کئے ہوئے کپڑے کا پیڈ بنا کر اس کی مدد سے اسے زور سے دبائیں۔ جب تک خون کا اخراج بند نہ ہوجائے دباؤ قائم رکھیں۔ • کسی پودے یا جانور سے حاصل کردہ کوئی چیز اس پر نہ لگائیں کیوں کہ ایسا کرنے سے انفیکشن کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ • زخم پر اسٹریلائز کی ہوئی صاف پٹی رکھیں۔ کسی تربیت یافیہ کارکن صحت یا ڈاکٹر سے پوچھیں کہ آیابچے کو تشنج کا ٹیکہ لگوانا ،چاہئیے یا نہیں۔

7. گلے میں کسی چیزکے پھنس جانے کے بارے میں ابتدائی طبی امداد: • اگر کوئی شیر خوار بچہ کھانس رہا ہے، تو اس بچے (یا بچی) کو کھانسنے دیں تاکہ گلے میں پھنسی ہوئی چیزباہرنکل جائے۔ اگر وہ چیزجلد باہر نہیں آتی، تو اس چیز کو بچے کے منہ میں سے نکالنے کی کوشش کریں۔ • اگر وہ چیز ابھی تک بچے کے گلے میں ہی پھنسی ہوئی ہے تو:

8 شیر خوار یا چھوٹے بچوں کے لئے (سر اور گردن کوسہارا دیں): • شیر خواریا چھوٹے بچے کامنہ اس طرح نیچے کی جانب موڑیں کہ اس کا سر اس کے پاؤں سے نیچے ہو۔ کمر پردونوں کندھوں کے درمیانی حصے میں پانچ محتاط مکے ماریں۔ بچے کا منہ اوپر کی جانب کریں اور چھاتی کی ہڈی کے اوپر دونوں نپلز کے درمیان ذرا زور سے پانچ مرتبہ دبائیں۔ جب تک وہ چیز باہر نہ آ جائے اس عمل کو دہرائیں (کبھی منہ نیچے اور کبھی اوپر کی جانب رکھیں)۔ • اگر آپ اس پھنسی ہوئی چیز کو نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکیں، توبچے کو فوری طور پر کسی نزدیکی کارکن صحت یا ڈاکڑ کے پاس لے جائیں۔

9. بڑے بچوں کے لئے: • بچے کے پیچھے اس طرح کھڑے ہوں کہ آپ کے ہاتھ بچے کی کمر کے گرد ہوں۔ • اپنے ہاتھ کا اس طرح مکا بنائیں کہ آپ کے انگوٹھے کا رخ بچے کے جسم کی جانب، ناڑو سے اوپر اور جبڑے کے نیچے ہو۔ • دوسرے ہاتھ کو پہلے ہاتھ کے اوپر رکھیں اور بچے کے پیٹ پر اندر اور اوپر کی جانب تیز جھٹکے دیں۔ جب تک پھنسی ہوئی چیز باہر نہ آجائے اس عمل کو دہرائیں۔ • اگر آپ اس پھنسی ہوئی چیز کو نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکیں، توبچے کو فوری طور پر کسی نزدیکی کارکن صحت یا ڈاکڑ کے پاس لے جائیں۔

10. سانس لینے میں مشکلات اورڈوبنے کی صورت میں ابتدائی طبی امداد: • اگر بچے کے سر یا گردن کے زخمی ہونے کا امکان ہو تو بچے کے سر کو حرکت نہ دیں۔ سر کو حرکت دیئے بغیر درج ذیل ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سانس بحال کریں۔ • اگربچے کو سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے یا اسے سانس نہیں آرہا، تو بچے کو کمر کے بل کسی ہموار سطح پر لٹا دیں اور اس بچے (یا بچی) کا سر تھوڑا سے پیچھے کی جانب جھکا دیں۔ بچے کے نتھنوں کو چٹکی سے پکڑ کر بند کریں اور اس کے منہ پر منہ رکھ کر ہوا بھریں،اس دوران اس کا پورا منہ ڈھانپ کر رکھیں۔ پھر، تین تک گنتی کریں اور دوبارہ ہوابھریں۔ جب تک بچہ سانس لینا شروع نہ کر دے یہ عمل جاری رکھیں۔ • اگربچہ سانس لے رہا ہے لیکن بے ہوش ہے، تو بچے کو اس کی کروٹ پر رول کریں تاکہ اس کی زبان اس کے سانس کو روک نہ لے۔ • اگرکوئی ایسافردجوتیرنانہیں جانتا،کسی بچے کو گہرے پانی میں ڈوبتے ہوئے دیکھتا ہے، تو اس فرد کو ،چاہئیے کہ فوری طور پر ایک رسی، تیرنے والی کوئی چیز یا درخت کی شاخ بچے کی جانب پھینکے اور زور زورسے لوگوں کو مدد کے لئے بلائے تاکہ دیگر لوگ وہاں پہنچ کر بچے کی جان بچاسکیں۔

11. زہریلی اشیاء کے استعال کے بارے میں طبی امداد:
• اگر بچے نے کوئی زہریلی شے نگل لی ہے، تو بچے کو قے کرانے کی کوشش نہ کریں۔ اس طرح بچہ زیادہ بیمار ہو سکتا ہے۔ • اگر کوئی زہریلی شے بچے کی جِلد یا کپڑوں پر موجود ہے، کپڑے اتار کر پانی کی ایک بڑی مقدار بچے کی جِلد پر ڈالیں۔ جِلد کو کئی مرتبہ صابن سے اچھی طرح صاف کریں۔ • اگر کوئی زہریلی شے بچے (یا بچی) کی آنکھ میں گر جائے، تو کم از کم 10منٹ تک بچے کی آنکھوں میں صاف پانی کے چھینٹے ماریں۔ • اگر ان میں سے کوئی بھی صورت حال پیش آئے تو بچے کو فوری طور پر کسی مرکز صحت یا اسپتال لے جائیں۔ اگر ممکن ہو، تو اس زہریلی شے یا دوائی کانمونہ اور اس کا ڈبہ وغیرہ ساتھ لے جائیں۔ بچے کو ممکنہ حد تک ساکت اور خاموش رکھیں۔ • اگر بچے کو کسی زہریلے کیڑے یا پاگل جانور نے کاٹا ہے، تو یہ بات اہم ہوگی کہ بچے کو فوری علاج کے لئے کسی مرکز صحت یا اسپتال لے جایا جائے۔

Tuesday 2 June 2015

شب بارات

ہماری سوسائٹی میں شب برات پر دو مکاتب فکر ہیں۔ ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ شب برات نجات کی رات ہے، اس رات لوگوں کے نامہ اعمال اللہ کے حضور پیش ہوتے ، ان کی تقدیر کا فیصلہ کیا جاتا، ان کے جینے مرنے کا تعین ہوتا ، لوگوں کو جہنم سے آزادی دی جاتی ہے۔ چنانچہ اس رات کی عبادت بہت افضل ہے اور اس رات قبرستان جانا چاہئے اور نوافل و اذکار کثرت سے کرنے چاہئیں۔
دوسرا گروہ اس رات کی مذہبی حیثیت کو چلینج کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس رات کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس رات کی بنیاد ضعیف احادیث پر ہے اور اس کے فضائل مستند نہیں۔ چنانچہ یہ گروہ اس رات کو بااہتمام منانے اور اجتماع کرنے کو بدعت مانتا اور اس کے تمام فضائل کو باطل قرار دیتا ہے۔
اس بارے میں ایک تیسرا نقطہ نظر بھی ہے جو غیر معروف لیکن حقیقت

سے قریب تر ہے۔ اس مکتبہ فکر جو چیزیں دین میں مباح یعنی جائز ہیں وہ سب کی سب اس رات میں جائز رہیں گی اور جو چیزیں ناجائز ہیں وہ اس رات کی بنا پر جائز نہیں ہوجائیں گی۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اس رات کو عبادت کرتا، نفل پڑھتا، قرآن کی تلاوت کرتا، ذکرو اذکار کرتا یا اور کوئی نیک عمل کرتا ہے اور اس کا مقصد خالص اللہ کی رضا ہے تو اسے کسی طور اس بنا پر ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا کہ یہ شعبان کی مخصوص رات کو یہ کام ہورہا ہے۔
دوسری جانب لاؤڈ اسپیکر پر نعتیں پڑھ کر لوگوں کی نیندیں حرام کرنا، پٹاخے اور آتش بازی سے پڑوسیوں کا سکون غارت کرنا، روحوں کو حاضر کروانا، مزارات پر سجدہ کرنا ، قبروں میں چلہ کشی کرناکسی بھی رات میں جائز نہیں تو اس رات میں کیونکر جائز ہوسکتا ہے۔