Monday 29 June 2015

عورتوں کی منڈی

رات کے کھانے کی بات ہوئی تو میاں صاحب نے اپنے ایک دوست کے کہنے پر شہرِ لاہور کے ایک معروف ریستوان '' انداز'' میں بکنگ کروائی۔میرے استفسار پر بتایا کہ یہ "ہیرا منڈی" میں واقع ہے۔ مجھے ہیرا منڈی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ فون پر جب میاں صاحب بات کر رہے تھے تو میں نے یہی سوچا کہ جیسے سبزی منڈی ہوتی ہے ویسے ہی ہیروں کی کوئی منڈی ہو گی صرافہ بازار کی طرز پر۔ خیر ہم لوگ جی پی ایس زندہ آباد کا نعرہ لگاتے ہوئے جس راہ سے گزرے وہاں بازاروں کی لمبی قطار چلی جا رہی تھی جسے دیکھ کر فیصل آباد کے آٹھ بازار یاد آ گئے۔ چاروں طرف رش ہی رش تھا اور بار بار ٹریفک جام ہو رہا تھا۔ مگر ریسٹورنٹ میں قدم رکھتے ہی جب میاں صاحب نے اس علاقے اور اس ریستوران کی کہانی بتائی تو دل کا حال عجیب سا ہو گیا۔وہاں جا کر پتا چلا وہ کوئی سبزی منڈی جیسی منڈی نہیں تھی وہ تو ''عورتوں کی منڈی'' تھی
ریسٹورنٹ میں بیٹھنے کا انتظام ایک عمارت کی چھت پر تھا جہاں سے دیکھنے پر بادشاہی مسجد کا ایک گنبد تو بالکل اپنے قدموں تلے نظر آتا ہے۔ عمارت کی نچلی منزل پر ہر جگہ کو کسی رقص گاہ کے سے انداز میں ویسا ہی سجا کر میوزیم کا نام دے دیا گیا تھا۔ اندھیرے کمرے، تنگ سی بل کھاتی وہ سیڑھیاں، دیواروں پر آویزاں رقاصاؤں، سازندوں اور مونچھوں کو تاؤ دیتے تماشائیوں کی وہ تصاویر، مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کوئی کہانی پڑھتے پڑھتے اس کہانی کے اندر داخل ہو گئی ہوں۔ یہ سب میں نے کہانیوں میں ہی پڑھا تھا۔ میں افسانے اورکہانیاں پڑھ کر جب بھی یہ سوچتی تھی کہ کیا ایسا حقیقت کی دنیا میں بھی ہوتا ہے تو اس سے آگے سوچنا ہی ترک کر دیتی تھی۔ بہت سی حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہمارا ذہن تو تسلیم کر لیتا ہے مگر دل ان سے انکاری ہی رہتا ہے۔

لیکن وہ تو ایسی تلخ حقیقت تھی جسے جھٹلانا ممکن نہیں تھا وہ میرے سامنے کی بات تھی۔ میں خود اس لمحے میں موجود تھی اور یہ وقت کا کڑوا ترین سچ تھا کہ ایک عورت اس بازار میں بیٹھی اس کشمش میں تھی کہ یہ عورت کا بازار ہے؟ یہاں عورت کی نمائش لگائی جاتی ہے! یہاں عورت کو بیچا جاتا ہے!

میں جتنی دیر وہاں رہی گم سم سی ہی رہی، میاں صاحب کو گلہ تھا کہ بول نہیں رہی ہوں، لیکن میری تو حالت ہی عجیب ہو گئی تھی۔ ایک عورت ہو کر میرے ان عورتوں کے لیے کیا جذبات تھے، میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔

مجھے سڑک پر کھڑے بھکاریوں پر بھی ترس آتا تھا مگر اس دن وہاں سے واپسی پر اس محلے کی کھڑکیوں سے نظر آتی ان عورتوں پر بے تحاشا ترس آیا اور گلی کے دوسری طرف بینچ پر سج دھج کر اپنی نمائش لگا کر اپنی قیمت لگنے کے انتظار میں بیٹھی وہ عورت مجھے دنیا کی مظلوم ترین مخلوق لگی جیسے اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے جانے کس مجبوری نے اس گند میں لا پھینکا، مجھے اس لمحے وہاں بیٹھی عورت کو دیکھ کر اپنے عورت ہونے پر دکھ ہوا، میں اکیلی اپنی گاڑی سے دو قدم دور اس عورت کو دیکھتے ہوئے کہیں کھو سی گئی کہ راہ چلتے ایک شخص نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور دور جاتے مجھے اس کی نظروں کی تپش خود پر محسوس ہوتی رہی، اگر ایک قتل کرنا اسلام میں جائز ہوتا تو میں اس شخص کا قتل کرنے میں ذرا سی دیر نا لگاتی، اتنے میں میاں صاحب مجھے تلاش کرتے کرتے میرے پیچھے آگئے اور کہا:

تمھیں اکیلے اس طرف نہیں آنا چاہیے تھا۔

مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا اس لیے چپ رہی، نہ اعتراف کیا نہ اعتراض۔

مرد کے بغیر عورت کی زندگی کیا ہے؟ یہ بات مجھے شادی کے بعد سمجھ میں آ گئی تھی مگرعورتوں کی منڈی جا کے تو ایسی سمجھ میں آئی کہ اب ساری زندگی نہیں بھول پاؤں گی۔

قرآن میں پڑھا تھا کہ
وتعز من تشاء و تذل من تشاء

پر اس دن مجھے لگا کہ عورت کی عزت اور ذلت کا دارومدار مرد پر ہوتا ہے وہ جسے چاہے اپنے گھر کی عزت بنائے جسے چاہے طوائف۔

مرد مرد ہوتا ہے، 'مرد ' کسی کا شوہر کسی کا بھائی کسی کا بیٹا اور کسی کا تماشائی۔۔۔

انہی سوچوں میں غلطاں، واپس اپنی قیام گاہ آئے اور آتے ہی دل چاہا کہ آنکھیں بند کروں اور سو جاؤں صبح اٹھوں تو خواب سمجھ کر سب کچھ بھول جاؤں مگر آج اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی وہ مناظر اور ان کی تکلیفیں اتنی ہی تازہ ہیں۔
ناعمہ عزیز

www.Facebook.com/azebamandi

No comments:

Post a Comment