Saturday 30 July 2016

حضرت یونس (ع) مچھلی کے پیٹ میں کیسے زندہ رہے ؟؟


ڈاکٹر امروز جان ولسن فیلو کوئز کالج آکسفورڈ نے حضرت یونس (ع) کے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنے کے بارے میں ایک مقالہ تھیولوجیکل ریویو میں تحریر کیا ہے
وہ لکھتے ہیں کہ 1890 میں ایک جہاز فاک لینڈ کے قریب وہیل مچھلی کا شکار کر رہا تھا ۔ اسکا ایک شکاری جیمس سمندر میں گر پڑا اور ایک وہیل مچھلی نے اسے نگل لیا۔ بڑی کوشش کے بعد وہ مچھلی دو روز بعد پکڑی گئی ۔ اسکا پیٹ چاک کیا گیا تو شکاری زندہ نکلا ۔ البتہ اسکا جسم مچھلی کی اندرونی تپش کی وجہ سے سفید ہو گیا تھا ۔ دو ہفتے کے علاج کے بعد وہ بلکل صحت مند ہو گیا ۔
1958 میں " ستارہ مچھلی " نام جہاز فاک لینڈ میں ہی مچھلیوں کا شکار کر رہا تھا کہ اسکا "بارکلے " نامی ملاح سمندر میں گر پڑا جسے ایک وہیل نے نگل لیا ۔ اتفاقً وہ مچھلی پکڑی گئی ۔ پورا عملہ اسے کلہاڑیوں سے کاٹنے لگا ۔ دوسرے دن بھی یہ کام جاری تھا کہ مردہ مچھلی کے پیٹ میں حرکت محسوس ہوئی ۔ اسکا پیٹ چیرا گیا تو انکا ساتھی بارکلے نکلا جو تیل اور چربی میں لتھڑا ہوا تھا ۔ بارکلے کو دو ہفتوں بعد ہوش آیا اور اپنی بپتا سنائی ۔
بارکلے کے متعلق یہ خبر اخبارات و جرائد میں چھپی تو علم و سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا ۔ بہت سے لوگوں نے انٹرویو لیے ۔ ایک مشہور سائنسی رسالے کے ایڈیٹر مسٹر ایم ڈی پاول نے تحقیق کے بعد لکھا کہ ۔ " اس حقیقت کے منکشف ہونے کے بعد میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت یونس (ع) کے متعلق آسمانی کتابوں میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ حرف بہ حرف صحیح ہے " ۔
1992 میں آسٹریلیا کا 49 سال ماہی گیر ٹورانسے کائس وہیل مچھلی کے پیٹ میں 8 گھنٹے رہنے کے بعد معجزانہ طور پر بچ گیا ۔ وہ بحرہند میں ایک چھوٹے ٹرالر پر مچھلیاں پکڑ رہا تھا کہ سمندر کی ایک بڑی لہر اسکے ٹرالر کو بہا لے گئی ۔ وہ کئی گھنٹوں تک سمندر میں ہاتھ پاؤں مارتا رہا ۔
اسی اثنا میں اسے یوں لگا جیسے کئی شارک مچھلیاں اسکی طرف بڑھ رہی ہوں ۔ جلد ہی اسے معلوم ہوا کہ دراصل وہ ایک بہت بڑی وہیل مچھلی کی زد میں ہے جو منہ کھولے اسکی طرف بڑھ رہی ہے ۔ وہیل نے اسے اپنے منہ میں دبا لیا لیکن اسکی خوش قسمتی تھی کہ وہ جبڑوں میں ہی چمٹا رہا ۔ وہیل اسکو مسلسل نگلنے کی کوشش کرتی رہی لیکن وہ برابر مزاحمت کرتا رہا جسکی وجہ سے اسکی اکسیجن مل رہی تھی اور وہ زندہ تھا ۔ 8 گھنٹے کی اس جدوجہد کے بعد جبکہ وہ نیم بے ہوش ہوچکا تھا اس نے خود کو اسٹریلیا کے ایک ساحل پر پایا ۔
دراصل مچھلی نے نگلنے میں ناکامی پر اس اگل دیا تھا یوں اسکی جان بچ گئی ۔
ان سب نے یہ بات کی تھی کہ مچھلی کے پیٹ میں تہہ بہ تہہ تاریکی تھی اور وہاں سانس لینے میں کوئی مشکل نہ تھی ۔! قرآن میں اللہ حضرت یونس (ع) کے بارے میں فرماتے ہیں ۔۔۔! " آخر اس نے تاریکیوں میں پکارا " نہیں ہے کوئی خدا مگر تو ، پاک ہی تیری ذات ، بے شک میں نے قصور کیا " ۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اللہ ہمارے ایمان و یقین کو کامل کرے ۔ آمین

Wednesday 20 July 2016

ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ***

ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ " ﺍﻣﯿﺪ " ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﮩﯿﻠﯽ " ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ " ﺳﮯ ﻣﻠﻨﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﺍﯾﮏ ﭘﮩﺎﮌ ﭘﺮ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ . ﭘﮩﺎﮌ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ " ﻣﺤﻨﺖ " ﺗﮭﺎ . ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻗﻠﻌﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ " ﺷﮏ " ﺗﮭﺎ . ﺍﺱ ﻣﯿﮟ "ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ " ﻧﺎﻣﯽ ﺟﺎﺩﻭﮔﺮﻧﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ . "ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ " ﻧﮯ " ﺍﻣﯿﺪ " ﮐﻮ ﺍﺱ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﮩﺮﮮ ﺩﺍﺭ "ﻭﮨﻢ " ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ " ﺍﻣﯿﺪ " ﮐﻮ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﺮ ﮐﮯ "ﺷﮏ " ﮐﮯ ﻗﻠﻌﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﺩﯾﺎ . ﯾﮩﺎﮞ " ﺍﻣﯿﺪ " ﮐﻮ " ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ " ﺍﻭﺭ " ﺧﻮﺩﮐﺸﯽ " ﻣﻠﻨﮯ ﺁﺋﯿﮟ . ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﮭﺎﺋﯽ " ﺣﻮﺻﻠﮧ " ﺑﮭﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ . " ﺍﻣﯿﺪ " ﻧﮯ " ﺣﻮﺻﻠﮧ " ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ..... " ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﯿﺪ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﻧﮑﻠﻮﮞ،،؟؟ " ﺣﻮﺻﻠﮧ " ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ .... "ﺑﮩﻦ ﮔﮭﺒﺮﺍﺅ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﮏ ﭼﺎﺑﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺳﺖ "ﺍﺭﺍﺩﮮ " ﻧﮯ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ . ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻗﻠﻌﮯ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻟﺘﺎ ﮨﻮﮞ . ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺟﺐ ﭼﺎﺑﯽ ﮔﮭﻤﺎﺋﯽ ﺗﻮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻞ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﮩﻦ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﺁﺋﮯ . ﺍﻥ ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺗﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ " ﻭﮨﻢ " ﺍﻭﺭ "ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ " ﮈﺭ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮒ ﮔﺌﮯ . " ﺍﻣﯿﺪ " ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ " ﺣﻮﺻﻠﮧ " ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻞ ﭘﮍﯼ . ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ "ﻣﺼﯿﺒﺖ " ﮐﯽ ﭘﮩﺎﮌﯾﺎﮞ ﻣﻠﯿﮟ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ " ﮨﻤﺖ " ﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﻗﺪﻣﯽ ﮐﯽ . ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺍﺱ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﺟﮩﺎﮞ "ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ " ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ . ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﮩﯿﻠﯿﺎﮞ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺋﯿﮟ . " ﺍﻣﯿﺪ " ﻧﮯ "ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ " ﺳﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﮐﯽ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ . " ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ " ﺑﻮﻟﯽ ... " ﺑﮩﻦ ! ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﻧﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ "ﺣﻮﺻﻠﮯ " ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻻﻧﺎ...!!!

Monday 18 July 2016

ایمان کی کمزوری

کہتے ھیں ایک ملاح کی کشتی لہروں کی نظر ھو گئی اور وہ ایک جزیرے میں پھنس کر رہ گیا.. اس نے جھاڑ جھنکار اکٹھا کرکے ایک جھونپڑا بنایا اور وھیں رھنے لگا..
دن گزرتے رھے اور کوئی اسکی مدد کو نہ آیا اور آتا بھی کیسے کہ کسی کو کیا خبر کہ وھاں کوئی موجود بھی ھے.. سمندر کی موجیں اس کی خبر پہنچانے کی راہ میں حائل تھیں..
ایک دن وہ زار و قطار روتا رھا اور اللہ پاک سے گلہ کرنے لگا.. "اے میرے اللہ ! تُونے میرے ساتھ کیا کردیا.."
ابھی وہ آہ و زاریوں سے فارغ ھو کر جھونپڑے سے باہر نکلا ھی تھا کہ آسمانی بجلی نے اس کے جھونپڑے کو جلا کر راکھ کردیا.. ملاح یہ منظر بےبسی سے دیکھتا رھا..
کچھ ھی دیر کے بعد کچھ لوگ اس جزیرے کیطرف آگئے.. ملاح نے خوشی اور حیرت سے پوچھا.. "تم لوگوں کو کیسے پتہ چلا کہ یہاں کوئی ھے..؟"
لوگوں نے کہا.. "ھم نے اس طرف سے آگ اور دھواں اُٹھتا دیکھا تو خیال گزرا کہ شاید کسی کو ھماری مدد کی ضرورت ھو.. بس اسی خیال سے چلے آئے.."
دوستو ! ھماری زندگی میں بھی بعض اوقات ایسے ھی حالات و واقعات پیش آتے ھیں اور ھم بھی پریشان و مایوسی کی راہ پر چلنے لگتے ھیں کہ یکایک اللہ پاک کیطرف سے مدد و نصرت آجاتی ھے اور یکایک حسرت و یاس کی جگہ مسرت و شادمانی لے لیتی ھے..
لیکن آج کے دور کا انسان جس تذبذب , بے چینی اور انتشار کا شکار ھے اس کا سبب ھی یہ ھے کہ ھمارا ایمان ذاتِ خداوندی پر سے کمزور ھو چکا ھے.. اگر ھم اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ھوں اور اسے رحمن , رحیم , غفار , جبار , قدوس , رزاق , طبیب اور منصف اعظم سمجھیں تو کیسے ممکن ھے کہ حالات میں بہتری نہ آئے..
لیکن یہ تب ھی ممکن ھے جب آپ کا ایمان و اعتقاد مضبوط ھو اور مشکلات و مسائل آپ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آنے دیں..
اللہ پاک ھمیں کامل ایمان اور استقامت عطا فرمائیں.. آمین..