Monday 12 December 2016

محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم

وہ تیئیس سال کے مختصر عرصہ میں دنیا کو تبدیل کردینے والا
وہ فقر کو اختیار کرکے فقیروں کو غنی کرنے والا
وہ راتوں کو اُٹھ کر میرے اور آپ کیلیئے رونے والا
وہ سینکڑوں سال پہلے ہماری بخشش کیلیئے خدا سے گھنٹوں دعائیں مانگنے والا
وہ نماز میں کھڑے کھڑے پاؤں سُجا لینے والا
وہ ہنس کر روشنیاں بکھیرنے والا
وہ رو کر غم کو اپنے سینے میں سما لینے والا
وہ امت کے غم میں ہلکان ہوجانے والا
وہ چڑیا کے بچوں کو دیکھ کر بےقرار ہونے والا
وہ آنکھوں سے انسان کو مسحور کردینے والا
وہ امام الانبیاء
وہ خاتم الرسل
وہ دنیا کا سب سے بڑا لیڈر
وہ دنیا کا سب سے عظیم استاد
وہ دنیا کا کامیاب ترین حکمران
وہ دنیا کا زیرک ترین سیاستدان
وہ بے مثال شوہر
وہ باکمال باپ
وہ قابل فخر نانا
وہ پیرِ کامل
وہ جس کی محبت مری رگ رگ میں شامل
وہ چلے تو فاصلے سمٹ کر معراج بن جائیں
وہ رکے تو زمانہ سانس لینا بھول جائے
وہ قدرت پا لینے کے بعد غلاف کعبہ پکڑ کر جانی دشمنوں کو معاف کرنے والا
وہ پتھر کھا کھا کر دعائیں دینے والا
وہ بادشاہ ہو کر بھی عامی کی زندگی گزارنے والا
وہ قاسم ہو کر بھی پیٹ پر پتھر باندھنے والا
وہ چاند کے دو ٹکڑے کرنے والا
وہ ٹوٹے دلوں کو جوڑنے والا
وہ یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنے والا
وہ بن ماں باپ کے بچے کو اپنا بچہ بنا لینے والا
وہ دشمنوں کو زیر کرنے والا
وہ پیار کرنے والا
وہ شافع میرا آخری سہارا
وہ میری آخری امید
میری منزل
میرا پیار
میری جان، میرا مال، میرا لہو، میرے ماں باپ، میری زندگی اس پر قربان
وہ جس کی تعریف ممکن نہیں
وہ جس کی توصیف کی ہمت نہیں
میرا نبی
میرا فخر
سرور کونین
وجہِ کائنات
محمد مصطفیٰ
صلی اللہ علیہ وسلم
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

Saturday 10 December 2016

دنیا عبرت کی جگہ ہے تماشا نہیں ہے

جہاز میں موجود مسافر چلا رہے ہیں جب پائلٹ نے بتایا کہ موت قریب ہے،

جب طیارے میں سوار مسافروں کو بتایا گیا کہ اب دنیا سے آخرت کی طرف روانگی ہے، جہاز اب چترال سے اسلام آباد نہیں آج کی منزل کہیں اور ہے جہاں ہر کسی نے جانا ہے،

وہ چیخیں مسافروں کی آہیں سب اپنے آپ کو موت کی جانب جاتے ہوئے رو رہے ہیں کوئی کلمہ پڑھ رہا ہے کوئی اللہ کو یاد کر رہا ہے ایسی چیخیں نکل رہی ہیں اور کوئی ایسا مسافر نہیں ہے جو خاموش رہا ہو،

دوستو زندگی یہی ہے آپ جتنا جھوٹ بولیں جتنا فریب کریں لوگوں کو بلیک میل کرکے اپنے مقاصد حاصل کریں اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ  ڈالہ روزگار چھینیں شراب زناخوری چوری کریں

ظلم جبر کریں لیکن آپ تکبر میں اتنا آگے نکل جائیں گے کہ آپ کو توبہ اور کیے ہوئے گناہوں کی معافی مانگنا بھی نصیب نہیں ہوگی

آپ کا موت وقت پر لکھا گیا ہے ایک دن آپ نے اس فانی دنیا کو چھوڑنا ہوگا

پھر قبر ہوگی جہاں ہمارے اعمال سانپ بچھو بن کر ہمیں ہی ڈسیں گے پھر دوزخ ہوگی جہاں کی آگ ایسی ہے اگر اس آگ کا ایک انگارہ کرہ ارض پر گری تو پوری دنیا جل کر خاک بن جائے گی،

اللّہ نے سب کی موت لکھی ہوئی ہے مگر حادثے اور دیگر طریقوں سے اموات دیکر اللہ پاک ہمیں ہوشیار کرنا چاہتے ہیں کہ میرے بندی توبہ کریں
دنیا میں انصاف کریں کسی کا دل نہ دکھائیں

دعا کریں اللہ پاک حادثے کے شکار تمام مسافروں کو جنت الفردوس میں جگہ نصیب کریں اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین،

Thursday 8 December 2016

جنید جمشید  سے ملاقات

 "

جب وہ سے ثناخواں بنا"

طارق جمیل صاحب فرماتے ہیں!
پہلی بار جب جنید جمشید  سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگا!
مولانا صاحب! دولت ' حسن اور دنیا کی رنگینیاں میرے گرد رقص کررہی ہیں مگر مجھے دل کا سکون نہیں ملتا'بے چین رھتا ہوں'یوں لگتا ھے جیسے میں وہ کشتی ہوں جسکا کوئی کنارہ نہیں ھے' ایسا کیوں ھے؟
مولانا نے فرمایا! دیکھو جنید درد دائیں گھٹنے میں ھے دوا بائیں گھٹنے پہ لگاو گے تو درد ختم نہیں ھوگا'درد روح کا ھے اور تم دوا جسم کو دے رھے ہو' یہاں سے جنید کی زندگی میں انقلاب آیا پھر چند دن بعد مجھے جنید جمشید کی کال آئی!
کہا مولانا صاحب آج ایک پرانی مسجد کی ٹوٹی ھوئی چٹائی پہ لیٹا ھوں'خدا کی قسم بڑے محلات میں جو نہیں ملا وہ سکون آج یہاں محسوس کررھا ہوں-میں آج بہت خوش ھوں-
آہ وہ تو بہت خوش ھوکر گیا مگر کروڑوں دلوں کو جدائی کا درد دے گیا-
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ پاک جنید بھائی کو اپنی رحمت میں جگہ دے- آمین.

Monday 5 December 2016

دلچسپ کرکٹ ریکارڈز

کچھ ایسے دلچسپ کرکٹ ریکارڈز جو شاید کبھی نہ ٹوٹ پائیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے کھیلوں کی طرح کرکٹ بھی اعداد و شمار اور ریکارڈز کا کھیل ہے۔ بہت سے ایسے معروف ریکارڈز بھی ہیں جو ناقابل تقلید ہیں اور شاید وہ کبھی نہ ٹوٹ پائیں۔ ۔

ون ڈے کی بہترین کفایتی باؤلنگ 


1992ء میں سڈنی کے مقام پر پاکستان کے خلاف ویسٹ انڈیز کے سمنز نے دس اوور کروائے۔ آٹھ میڈن رہے جبکہ تین رنز دیکر انہوں نے چار کھلاڑی آؤٹ کیے۔ یہ کسی بھی ون ڈے میچ کی سب سے زیادہ اکنامک باؤلنگ ی ریٹ ہے۔ قیاس ہے کہ یہ ریکارڈ بھی کبھی ٹوٹے گا نہیں۔
بہترین باؤ لنگ ایکوریسی
یہ بالکل ایک حیران کن ریکارڈ ہے کہ ویسٹ انڈیز کے مائیکل ہولڈنگ نے 5473 گیند یعنی 900 سے زائد ایسے اوور کروائے ہیں جن میں ایک بھی وائیڈ بال شامل نہیں۔ یہ اوورز زیادہ تر ون ڈے میچز کے ہیں۔ مائیکل ہولڈنگ کی بالنگ میں رفتار اور ایکوریسی ہمیشہ دوسروں کیلئے قابل تقلید رہی ہے۔ موجودہ باؤلرز کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مائیکل ہولڈنگ کا یہ ریکارڈ شاید کبھی نہ ٹوٹ پائے۔
بڑے مارجن سے شکست ( بہت ہی حیران کن ۔۔۔ایسا بھی ہوتا ہے)
پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں چار دسمبر 1964ء کو پاکستان ریلوے نے ڈیرہ اسماعیل خان کی ٹیم کو ایک اننگز اور851 رنز سے شکست دیکر ایسا ریکارڈ بنایا جو شاید توڑنا ناممکن ہے۔ ریلوے کپتان بشیر حیدر نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور چھ وکٹوں پر 910 رنز بنائے۔ جواب میں مخالف ٹیم محض پہلی اننگز میں 32 اور دوسری اننگز میں27 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔
سب سے زیادہ مسلسل ٹیسٹ میچز
یہ ایک شاندار ریکارڈ ہے کہ آسٹریلیا کے بہترین کپتانوں میں سے ایک ایلن بارڈر نے 10 مارچ 1979ء سے لیکر 25 مارچ تک مسلسل 153 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں۔ ان کے بعد انہی کے ہم وطن سٹیووا کا نام آتا ہے جومسلسل 107 ٹیسٹ میچ کھیل کر اس ریکارڈ کا حصہ بنے ۔ اس وقت ایلسٹر کک وہ کھلاڑی ہیں جو اس ریکارڈ کو برابر یا توڑ سکتے ہیں۔ ان کی اس وقت عمر 30 برس ہے۔
طویل العمری میں ٹیسٹ ڈیبیو (ڈیبیو کا مطلب اپنا پہلا انٹرنیشنل میچ کھیلنا)
جیمز ساؤتھرٹن نے 49 برس 119 دنوں میں انگلینڈ کی طرف سے ٹیسٹ ڈیبیو کر کے ریکارڈ بنایا۔ وہ ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والوں میں سب سے طویل العمر کرکٹر ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ریکارڈ ٹوٹ سکتا ہے۔
سیریز میں زیادہ سے زیادہ وکٹیں
لیگ بریک باؤلرز میں سے ایک بہترین نام سڈنی ہارنز ہے ۔ اس نے ایک ٹیسٹ سیریز میں سب سے زیادہ وکٹیں لیکر ریکارڈ بنایا ہے۔ انہوں نے 1913-14 میں جنوبی افریقہ کے خلاف 4ٹیسٹ میچز کی سیریز میں 49 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اس سیریز میں انہوں نے 7 مرتبہ پانچ وکٹ حاصل کیے۔ اس بنا پر مبصرین نے انہیں صدی کا بہترین باؤلر قرار دیا ہے۔ ان کے بعد انگلینڈ کے جم لیکر نے 46 وکٹیں حاصل کیں۔ یہ کارنامہ 1956ء میں آسٹریلیا کے خلاف ایشز سیریز میں انجام دیا تھا۔ ان کے بعد شین وارن کا نام آتا ہے جنہوں نے 2005ء کی ایشنز سیریز میں انگلینڈ کے خلاف 40 وکٹ حاصل کیے تھے۔
پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں ڈبل سنچری
ٹیسٹ ریکارڈ کے مطابق کرکٹ کی تاریخ میں صرف ایک مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ لارنس اے نے ویسٹ انڈیز کی طرف سے نیوزی لینڈ کے خلاف پہلی اننگز میں 214 رنز جبکہ دوسری اننگز میں 100 رنز بنائے۔ یہ میچ 1971-72 میں کھیلا گیا۔ ان کے بعد پاکستان کے یاسر حمید وہ بلے باز ہیں جنہوں نے پہلے ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنائیں۔ 2003ء میں بنگلہ دیش کے خلاف پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 107 اور دوسری اننگز میں 105 رنز بنائے تھے۔
شاندار باؤلنگ، دس وکٹیں صرف دس رنز کے عوض
1932ء میں ناٹنگم شائر کے خلاف معروف کاؤنٹی یارک شائر کے ہیڈلے ورٹی نے دس رنز کے عوض دس کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے تاریخ ساز ریکارڈ بنایا۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے بریڈمین کو ایک سے زائد بار آؤٹ کیا۔
ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ باؤلنگ
1957ء میں ایجسٹن میں سنی رام دین نے انگلینڈ کے خلاف 588 گیندیں یعنی 98 اوورز کروائے۔ ان کے علاوہ آج تک کوئی بھی باؤلر 90 اوورز سے زائد بائولنگ نہیں کروا سکا۔
مختصر ترین ٹیسٹ میچ
ٹیسٹ میچ کا دورانیہ پانچ دن ہوتا ہے لیکن ایک ٹیسٹ میچ محض پانچ گھنٹے اور 53 منٹ تک جاری رہ کر اختتام پذیر ہوا۔ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے مابین ہونے والے جنوبی افریقہ کی ٹیم پہلی اننگز میں محض 38 رنز بنا کر آؤٹ ہوئی۔ جواب میں آسٹریلیا نے 153 رنز بنائے۔ دوسری اننگز میں افریقی ٹیم پھر45 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ یوں یہ ٹیسٹ میچ دنیا کا مختصر ترین ٹیسٹ میچ ثابت ہوا۔

Monday 21 November 2016

دوسری جنگ

دوسری جنگ عظیم کا مختصر جائزہ جس میں تقریباً 6 کروڑ سے 8 کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔

لیکن یہ دلچسپ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس جنگ کی وجہ سے ہی پاکستان اور بھارت معرضِ وجود میں آئے تھے۔ کیونکہ

برطانیہ کی معیشت اس جنگ کی وجہ سے کافی کمزور ہو گئی تھی اور وہ جنوبی ایشیاء کے کروڑوں لوگ جو پہلے ہی بپھرے ہوئے تھے کو سنبھال نہیں سکتا تھااور اس جنگ کی وجہ سے بھارت اور اور پاکستان کی آزادی کی راہ ہموار ہوئی ۔جنگ کے عالمی منظر نامے پر دوررس اثرات مرتب ہوئے۔ تاج برطانیہ کا سورج غروب ہوا اور جنگ کے بعد اسے اپنے کئی نوآبادیات میں سے نکلنا پڑا جس میں ہندوستان بھی شامل تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی منظر نامے پر دو بڑی طاقتیں نمودار ہوئیں۔ روس اور امریکا ۔ ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ جس کی وجہ سے کئی چھوٹی جنگیں لڑی گئیں۔ جدید جمہوری ریاستیں اور کمیونسٹ ریاستیں اس جنگ کے بعد ایک دوسرے کےخلاف برسرپیکار ہوگئیں۔

مختصر جائزہ اس جنگ کا

دوسری جنگ عظیم ( World War II یا Second World War) ایک عالمی جنگ تھی جو 1939ء سے شروع ہوئی اور 1945ء میں ختم ہوئی۔ جس میں تقریباً 6 کروڑ سے 8 کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔

جنگ عظیم کا بیج اسی وقت بو دیاگیا تھا جب معاہدہ ورسائی پر دستخط ہوئے تھے۔ لیکن اس کا باقاعدہ آغاز 3 ستمبر 1939ء کو ہوا جب پولینڈ پر جرمنی حملہ آور ہوا اور برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ 1918ء سے 1939ء تک کی یورپین تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ اس کا خواہاں تھا کہ ہٹلر زیادہ سے زیادہ طاقت پکڑ جائے۔ اسی غرض سے اس نے چیکو سلواکیہ کے حصے بخرے کیے ، اور پھر پورے چیکوسلواکیہ پر جرمنوں کا قبضہ ہونے پر بھی برطانیہ خاموش رہا کہ ہٹلر کی حکومت مضبوط ہو جائے تاکہ وہ روس پر حملہ کرے۔ مگر جب ہٹلر نے روس پر حملہ کرنے کے بجائے پولینڈ پر حملہ کر دیا تو انگریز گھبرا اٹھے اور انھوں نے پولینڈ کی حمایت میں نازی جرمنی کے خلاف تلوار اٹھا لی۔

یکم ستمبر 1939 کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا۔ 3 ستمبر برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ 28 ستمبر جرمنی اور روس میں پولینڈ کی تقسیم کے بارے میں معاہدہ ہوا۔ 30 نومبر کو روس نے فن لینڈ پر حملہ کردیا۔ فنلینڈ پر حملے کے بعد جرمن نے روس کو بھی اپنا دشمن بنا لیا

9 اپریل 1940ء کو جرمنی نے ڈنمارک پر قبضہ کر لیا۔ اور ناروے پر حملہ کیا۔ 10 مئی کو جرمنی نے بلیجیم ، ہالینڈ ، اور لکسمبرگ پر حملہ کیا۔انہی دنوں چرچل وزیر اعظم بنا۔10 جون کو اطالیہ نے فرانس کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ 13 جون جرمنی نے پیرس پر قبضہ کر لیا۔ 22 جون فرانس نے ہتھیار ڈال دیے۔ 27 ستمبر کوجرمنی ، اطالیہ ، جاپان کا سہ طاقتی معاہدہ ہوا۔

14 اپریل 1941ء روس اور جاپان نے معاہدہ غیر جانبداری سامنے آیا۔ 22 جون کو روس پر جرمنی نے حملہ کر دیا۔ 25 تا 29 اگست برطانیہ اور روس کا ایران پر حملہ اور قبضہ ہوا۔ 7دسمبر کو جنگ مں اعلان کے بغیر جاپان نے شمولیت اختیار کی۔ 8 دسمبر کو جاپان نے امریکا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ 11 دسمبر کو جرمنی اور اطالیہ کی طرف سے امریکا کے خلاف اعلان جنگ کا ہوا۔

26 جولائی 1943ء میں مسولینی کی حکومت کا تختہ الٹ دیاگیا۔ اور وہ گرفتار ہوا۔ 9 ستمبر 1943ء اطالیہ نے اتحادیوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔مسولینی کو خود عوام نے چوک پر پھانسی دینے کے بعد لاش کو آگ لگادی۔

جون 1944ء اتحادی فوجیں سرزمین فرانس پر اتریں. فرانسیسی فوج نےجرمن فوج سے بری طرح شکست کھای اور ھتھیار ڈال دیے. بعد می سب موت کے گھاٹ اتار دیے گۓ.جرمن کا زوال سٹالن گراڈ کی بھیانک جنگ سے شروع ھوا جرمن فوج بلاشبہ کامیاب تھے لیکن سردی اور برف باری نے ان کی شکست یقینی بنادی. ھزارون فوجی سردی کی وجہ سے ھلاک ھوۓ.سٹالن گرڈ کا قومی ھیرو Vasili Zaistovکو مانا جاتا ھے جوکے بھترین نشانہ باز تھے.

28 اپریل کو مسولینی کو اطالوی عوام نے پھانسی دے دی۔ 30 اپریل کو ہٹلر نے خود کشی کر لی۔ 7 مئی کو جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے۔ 6 اگست جو جاپان کے شہر ہیروشیما پر امریکا نے ایٹم بم گرایا۔ 9 اگست کو جاپان کا دوسرا شہر ناگا ساکی ایٹم بم کا نشانہ بنا۔ 14 اگست کو جاپان نے ہتھیار ڈال دیے۔

نتائج:۔۔۔۔۔۔۔

اس جنگ میں 61 ملکوں نے حصہ لیا۔ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا 80 فیصد تھی۔ اور فوجوں کی تعداد ایک ارب سے زائد۔ تقریباً 40 ملکوں کی سرزمین جنگ سے متاثر ہوئی۔ اور تقریباً 6 کروڑ سے 8 کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔ سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا۔ تقریباً 2 کروڑ روسی مارے گئے۔ اور اس سے اور کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ روس کے 1710 شہر اور قصبے ۔ 70000 گاؤں اور 32000 کارخانے تباہ ہوئے۔ پولینڈ کے 600،000 ، یوگوسلاویہ کے 1700000 فرانس کے 600000 برطانیہ کے 375000 ، اور امریکا کے 405000 افراد کام آئے۔ تقریباً 6500000 جرمن موت کے گھات اترے اور 1600000 کے قریب اٹلی اور جرمنی کے دوسرے حلیف ملکوں کے افراد مرے۔ جاپان کے 1900000 آدمی مارے گئے۔ جنگ کا سب سے ظالمانہ پہلو ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا ایٹمی حملہ تھا۔ جاپان تقریباً جنگ ہار چکا تھا لیکن دنیا میں انسانی حقوق کے ٹھیکے دار امریکہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

Monday 26 September 2016

ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؟

ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؟
-1 ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﻮﺗﮯ ﻭﮦ ﭘﮩﻠﯽ ﭼﯿﺰ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ
ﻟﻮﮒ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﻧﻔﯿﺲ ﺟﻮﺗﮯ
ﭘﮩﻨﻮ ۔
-2 ﺍﮔﺮﺁﭖ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺟﺎﻥ
ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﭘﭽﺎﺱ ﻓﯿﺼﺪ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﺁﭖ ﺩﻭ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮ
ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ۔
-3 ﮐﻢ ﺍﺯﮐﻢ ﭼﮫ ﻟﻮﮒ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮨﻢ ﺷﮑﻞ ﻣﻮﺟﻮﺩ
ﮨﯿﮟ ۔
ﺍﻭﺭ ﻧﻮ ﻓﯿﺼﺪ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ
ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ
-4 ﺗﮑﯿﮯ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﮐﻤﺮ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮨﻮﺗﯽ
ﮨﮯ ۔ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺮ ﺩﺭﺩ ﺳﮯ ﺁﺭﺍﻡ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
-5ﮐﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﻗﺪ ﻋﻤﻮﻣﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮ
ﮔﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﻭﺯﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ
-6 ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺩﻣﺎﻍ ﺗﯿﻦ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﭘﺮ ﻓﻮﺭﺍ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔
ﮐﮭﺎﻧﺎ ، ﺩﻟﮑﺶ ﻟﻮﮒ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﺮﮦ
-7ﺩﺍﯾﺎﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﻃﺮﻑ
ﭼﺒﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔
-8 ﺧﺸﮏ ﭨﯽ ﺑﯿﮓ ﻭﺭﺯﺵ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﺑﻮﺩﺍﺭ ﺟﻮﺗﻮﮞ
ﺳﮯ ﺑﺪﺑﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
-9 ﺍﻟﺒﺮﭦ ﺁﺋﻦ ﺳﭩﺎﺋﻦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﮔﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﺷﮩﺪ ﮐﯽ
ﻣﮑﮭﯽ ﮐﺎ ﻭﺟﻮﺩ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ
ﺗﻮ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﭼﺎﺭ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ۔
-10 ﺳﯿﺐ ﮐﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻗﺴﺎﻡ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺍﯾﮏ
ﻧﺌﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﺳﯿﺐ ﺁﭖ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ۔ ﺗﻮ ﺑﯿﺲ
ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ ۔
-11ﺁﭖ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻔﺘﻮﮞ ﺗﮏ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺻﺮﻑ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺩﻥ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮦ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ۔
-12ﮨﻨﺴﻨﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ ﺧﺸﮏ ﻣﺰﺍﺝ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔
-13ﺳﺴﺘﯽ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﻼﮎ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ
ﺳﮕﺮﯾﭧ ﻧﻮﺷﯽ ۔
-14 ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺩﻣﺎﻍ ﻭﮐﯽ ﭘﯿﮉﯾﺎ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﮔُﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ
ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﺟﻤﻊ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ۔
-15 ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺩﻣﺎﻍ ﺩﺱ ﻭﺍﭦ ﮐﮯ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﮯ ﺑﻠﺐ ﺟﺘﻨﯽ ﻃﺎﻗﺖ
ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ۔
-16 ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺟﺴﻢ ﺗﯿﺲ ﻣﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺣﺮﺍﺭﺕ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﮈﯾﮍﮪ لیٹر ﭘﺎﻧﯽ ﺍُﺑﺎﻻ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ۔
-17 ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺩﺱ ﻣﻨﭧ ﭘﯿﺪﻝ ﭼﻠﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ۔ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ۔
ﺍﺱ ﺳﮯ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

Thursday 22 September 2016

PAK india WAR

  •  اگر آپ کو سچ مچ بھارت پر شدید غصہ ہے تو اپنی جنگ کا آغاز ابھی ابھی کر دیں ۔
  • تمام انڈین گانے،ڈرامے، فلمیں، رسالے،لباس ،جیولری اور خاص کر رسومات کو اپنی زندگی سے فوری نکال پھینکیں۔
  • جنگ کر کے انڈیا کو ہرا دینے کا ولولہ رکھنے والوں سے صرف ایک سوال ہے کہ کیا خاندان کی کسی شادی میں مہندی مایوں ہاتھ برتانا گود بھرائ جیسی انڈین رسموں کے خلاف کبھی اعلان جنگ کیا ہے؟ 
  • انڈین واہیات گانوں پر ناچتے دوستوں یا رشتہ داروں کی محفل کو ٹھوکر ماری ہے؟
  • جنگ صرف سرحدوں پر اور ہتھیاروں ہی نہیں لڑی جاتی بلکہ اپنے نفس سے لڑ کر شکست دے کر رب کے حضور سچی توبہ کر کے اللہ تعالٰی کی رضا سے لیس ہونے کے ساتھ سینہ سپر ہوئے کی ضرورت ہے ۔ اللہ کی رضا اور مدد کے بغیر نصرت کا تصور خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔اللہ تعالٰی ہمارا حامی و ناصر ہو ۔

Sunday 28 August 2016

علامہ جلال الدین  رومی سے چند سوالات

علامہ جلال الدین  رومی سے چند سوالات پوچھے گئے ۔ جن کے انہوں نے بہت خوبصورت مختصر اور جامع جوابات عطا فرمائے جو بالترتیب پیشِ خدمت ہیں:

*1- زہر کسے کہتے ہیں؟*
ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زائد ہو، وہ ہمارے لئے زہر ہے خواہ وہ قوت و اقتدار ہو، دولت ہو، بھوک ہو،انانیت ہو، لالچ ہو، سستی و کاہلی ہو، محبت ہو، عزم و ہمت ہو، نفرت ہو یا کچھ بھی ہو۔

*2- خوف کس شئے کا نام ہے؟*
غیرمتوقع صورتِ حال کو قبول نہ کرنے کا نام خوف ہے۔ اگر ہم غیر متوقع کو قبول کر لیں تو وہ ایک ایڈونچر ایک مہم جوئی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

*3- حسد کسے کہتے ہیں؟*
دوسروں میں خیر اور خوبی کو تسلیم نہ کرنے کا نام حسد ہے۔ اگر ہم اس خوبی کو تسلیم کرلیں تو یہ رشک اور انسپریشن بن کر ہمارے لئے ایک مہمیز کا کام انجام دیتی ہے۔

*4- غصہ کس بلا کا نام ہے؟*
جو امور ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں، ان کو تسلیم نہ کرنے کا نام غصہ ہے۔ اگر ہم تسلیم کرلیں تو عفو درگزر اور تحمل اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔

*5- نفرت کسے کہتے ہیں ؟*
کسی شخص کو جیسا کہ وہ ہے، تسلیم نہ کرنے کا نام نفرت ہے۔ اگر ہم غیر مشروط طور پر اسے تسلیم کرلیں قبول کرلیں، تو اسے محبت کہیں گے۔

Saturday 20 August 2016

راشد منہاس کا 45 واں یوم شہادت


وطن کی خاطر جان کی قربانی دینے والے پاک فضائیہ کے شاہین راشد منہاس کا 45 واں یوم شہادت آج بھر پور انداز میں منایا جا رہا ہے۔

پاک فضائیہ کے آفیسر پائلٹ راشد منہاس سترہ فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے، انہوں نے جامعہ کراچی سے ملٹری ہسٹری اینڈ ایوی ایشن ہسٹری میں ماسٹرز کیا۔

راشد منہاس نے تیرہ مارچ 1971 کو پاک فضائیہ میں بطور کمیشنڈ جی ڈی پائلٹ شمولیت اختیار کی۔

بیس اگست 1971 کو T-33 ٹرینر کی پرواز میں فلائٹ لیفٹنینٹ مطیع الرحمان بھی ان کے ساتھ سوار ہوا، مطیع نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے نوجوان پائلٹ پرضرب لگائی اور طیارے کا رخ ہندوستان کی جانب موڑ لیا۔

طیارہ ہندوستان کی جانب رواں دواں تھا کہ اس اثناء میں راشد منہاس کو ہوش آگیا اور انہیں اندازہ ہوگیا کہ طیارہ اغواء کرلیا گیا ہے۔

راشد منہاس نے اس موقع پر پی اے ایف مسرور بیس میں صبح ساڑھے گیارہ کے قریب رابطہ کیا اور طیارے کے اغواء سے متعلق آگاہ کیا۔

اس موقع پر راشد اور مطیع کے درمیان جھڑپ شروع ہوگئی اور انہوں نے مطیع کو اس کے مذموم مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیا اور طیارہ ہندوستان کی سرحد سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر زمین بوس ہوا جہاں راشد منہاس نے شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔

راشد منہاس شہید نے اپنی جان قربان کرکے ملک کے دفاع اور حرمت کی لاج رکھ لی۔

ان کی بے مثال قربانی پر حکومت پاکستان نے انھیں اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا اور اٹک میں قائم کامرہ ایئر بیس کو ان کے نام سے منسوب کردیا، قوم کوعظیم سپوت کی قربانی اور کارنامے پر ہمیشہ فخر رہے گا۔

Wednesday 10 August 2016

یہ تحریر نہ پڑھی تو سمجھو کچھ بھی نہ پڑھا

ایک بار جب جبرائیل علیہ سلام نبی کریم کے پاس آے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرایل کچھ پریشان ہے آپ نے فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپکو غمزدہ دیکھ رہا ہو ں جبرائیل نے عرض کی اے محبوب کل جہاں آج میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکہ آیا ہوں اسکو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوے ہیں نبی کریم نے فرمایا جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاو جبرائیل نے عرض کی جہنم کے کل سات درجے ہیں
ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا
اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈلیں گے
اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے
چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے
تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے
دوسرے درجے میں اللہ تعالی عسائیوں کو ڈالیں گئ
یہ کہہ کر جبرائیل علیہ سلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم نے پوچھا
جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاو کہ پہلے درجے میں کون ہوگا
جبرائیل علیہ سلام نے عرض کیا
یا اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپکے امت کے گنہگاروں کو ڈالے گے
جب نبی کریم نے یہ سنا کہ میری امت کو بھی جہنم میں ڈالا جاے گا تو آپ بے حد غمگین ہوے اور آپ نے اللہ کے حضور دائیں کرنا شروع کی تین دن ایسے گزرے کہ اللہ کے محبوب  مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لاتے نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جاتے اور دروازہ بند کرکہ اللہ کے حضور رو رو کر فریاد کرتے صحابہ حیران تھے کہ نبی کریم پہ یہ کیسی کیفیت طاری ہوئی ہے مسجد سے حجرے جاتے ہیں
گھر بھی تشریف لیکر نہیں جا رہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو سیدنا ابو بکر سے رہا نہیں گیا وہ دروازے پہ آے  دستک دی اور سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہیں آیا ۔ آپ روتے ہوے سیدنا عمر کے پاس آے اور فرمایا کہ میں نے سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہ پایا لہذا آپ جائیں آپ کو ہوسکتا ہے سلام کا جواب مل جاے آپ گئے تو آپ نے تین بار سلام کیا لیکن جواب نہ آیا  حضرت عمر نے سلمان فارسی کو بھیجا لیکن پھر بھی سلام کا جواب نہ آیا حضرت سلمان فارسی نے واقعے کا تذکرہ علی رضی اللہ تعالی سے کیا انہوں نے سوچا کہ جب اتنے اعظیم شحصیات کو سلام کا جواب نہ ملا تو مجھے بھی خود نھی جانا نھی چاھیئے
بلکہ مجھے انکی نور نظر بیٹی فاطمہ اندر بھیجنی چاھیئے۔ لہذا آپ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی کو سب احوال بتا دیا آپ حجرے کے دروازے پہ آئی
" ابا جان اسلام وعلیکم"
بیٹی کی آواز سن کر محبوب کائینات اٹھے دروازہ کھولا اور سلام کا جواب دیا
ابا جان آپ پر کیا کیفیت ھے کہ تین دن سے آپ یہاں تشریف فرما ہے
نبی کریم نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ میری امت بھی جہنم میں جاے گی فاطمہ بیٹی مجھے اپنے امت کے
گنہگاروں کا غم کھاے جا رہا ہے اور میں اپنے مالک سے دعائیں کررہا ہوں کہ اللہ انکو معا ف کر اور جہنم سے بری کر یہ کہہ کر آپ پھر سجدے میں چلے گئے اور رونا شروع کیا یا اللہ میری امت یا اللہ میری امت کے گناہگاروں پہ رحم کر انکو جہنم سے آزاد کر
کہ اتنے میں حکم آگیا "وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى
اے میرے محبوب غم نہ کر میں تم کو اتنا عطا کردوں گا کہ آپ راضی ہوجاو گے
آپ خوشی سے کھل اٹھے اور فرمایا لوگوں اللہ نے مجھ سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ روز قیامت مجھے میری امت کے معاملے میں خوب راضی کریں گا اور میں نے اس وقت تک راضی نہیں ہونا جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہ چلا جاے
لکھتے ہوے آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ہمارا نبی اتنا شفیق اور غم محسوس کرنے والا ہے اور بدلے میں ہم نے انکو کیا دیا ؟ آپکا ایک سیکنڈ اس تحریر کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کا زریعہ ہے میری آپ سے عاجزانہ اپیل ہے کہ لاحاصل اور بے مقصد پوسٹس ہم سب شیئر کرتے ہیں . آج اپنے نبی کی رحمت کا یہ پہلو کیوں نہ شیئر کریں....

انتہائی خوبصورت سچا واقعہ

.. لازمی پڑھیں اور  شیئر کریں...

ننھا داعی
جمعـہ کو نماز عصر کے بعد باپ بیٹے کا معمـول تھا کہ وہ لوگوں کو دین کی دعوت دینے کے لیے اپنے گھر سے نکلتے ، بازار کے وسط میں سڑک کنارے کھڑے ہو جاتے , آتے جاتے لوگوں میں اسلامی لٹریچر تقسیم کرتے.. باپ مقامی مسجد میں خطیب ہیں.. ان کا گیارہ سالہ بیٹا گذشتہ کئی سالوں سے موسم کی شدت کی پرواہ کیے بغیر اپنے والد کے ساتھ جاتا تھا..

ایمسٹر ڈم ہالینڈ کا دارالحکومت ھے۔ یورپ کا یہ چھوٹا سا ملک بے حد خوبصورت ہے۔ یہاں بے حد و حساب پھول پیدا ہوتے ہیں۔ بارشیں کثرت سے ہوتی ہیں، اس لیے یہاں ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے۔ دودھ کی پیداوار اور اس کی پروڈکٹ کے اعتبار سے یہ ملک بڑا مشہور ہے۔ کتنی ہی مشہور زمانہ کمپنیاں یہاں سے خشک دودھ دنیا بھر میں سپلائی کرتی ہیں۔

اس روز موسم بڑا ہی خراب تھا۔ صبح سے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ یخ بستہ سردی کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے بارش بھی ہو رہی تھی۔جمعہ کا دن تھا اور معمول کے مطابق باپ بیٹے کو لٹریچر تقسیم کرنا تھا۔ والد تھوڑی ہی دیر پہلے مسجد سے گھر پہنچے تھے۔انہیں قدرے تھکاوٹ بھی تھی۔ بیٹے نے خوب گرم کپڑے پہنے اور اپنے والد صاحب سے کہنے لگا: اباجان چلیے! لٹریچر تقسیم ککا وقت ہو چکا ہے۔

مگر بیٹے! آج تو موسم بڑا خراب ہے۔ سردی کے ساتھ ساتھ بارش بھی ہو رہی ہے۔

میں تو تیار ہو گیا ہوں۔ بارش ہو رہی ہے تو پھر کیا ہے؟ یہاں تو بارش کا ہونا معمول کی بات ہے، بیٹے نے جواب دیا۔

بیٹے! موسم کا تیور آج ہم سے یہ کہہ رہا ہے کہ ہم آج گھر پر ہی رہیں، والد نے جواب دیا۔

اباجان! آپ تو خوب جانتے ہیں کہ کتنے ہی لوگ جہنم کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمیں ان کو بچانا ہے۔انہیں جنت کا راستہ دکھانا ہے۔ آپ کو تو خوب معلوم ہے کہ جنت کا راستہ نامی کتاب پڑھ کر کتنے ہی لوگ راہِ راست پر آگئے ہیں۔

والد: بیٹے! آج میرا اس موسم میں باہر جانے کا قطعًا ارادہ نہیں ہے۔ کسی اور دن پروگرام بنا لیں گے۔

بیٹا: اباجان! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آج میں اکیلا ہی ان کتابوں کو تقسیم کر آؤں ؟ ۔ بیٹے نے اجازت طلب نگاہوں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔والد تھوڑی دیر تردد کا شکار ہوئے اور پھر کہنے لگے: میرے خیال میں تمہارے اکیلے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ کا نام لے کر تم بے شک آج اکیلے ہی چلے جاؤ اور لوگوں میں کتابیں تقسیم کر آؤ۔
والد نے بیٹے کو Road to Paradise’’جنت کا راستہ ‘‘نامی کچھ کتابیں پکڑائیں اور اسے فی اما ن اللہ کہہ کر الوداع کہہ دیا۔ قارئین کرام! اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ہمارے اس ننھے داعی کی عمر صرف گیارہ سال ہے اسے بچپن ہی سے اسلام سے شدید محبت ہے اور وہ نہایت شوق سے دین کے کاموں میں پیش پیش رہتا ہے۔

ننھا داعی گھر سے نکلتا ہے ، اس کا رخ بازار کی طرف ہے جہاں وہ کافی عرصہ سے لٹریچر تقسیم کرتا چلا آ رہا ہے۔ اب وہ بازار میں اپنی مخصوص جگہ پر کھڑا ہے وہ اپنی مسکراہٹ سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ان کو سلام کرتا ہے۔ انہیں روکتا ہے۔ ان سے بات چیت کرتا ہے مسکراتے ہوئے ان سے کہتا ہے:دیکھیے سر! میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے شدید محبت کرتا ہے۔ وہ انہیں کتاب پیش کرتا ہے، ان سے کہتا ہے: جناب! یہ فری ہے۔ یہ آپ کے لیے ہے۔ ان میں کچھ لوگ اس ننھے لڑکے سے کتاب لے لیتے ہیں کچھ شانے اچکا کر آگے نکل جاتے ہیں ۔کچھ کتابیں تقسیم کرنے کے بعد اب اس کا رخ قریبی محلے کی طرف ہے وہ بعض گھروں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے اگر کوئی باہر نکلتا ہے تو مسکراتے ہوئے اسے کتاب کا تحفہ پیش کرتا ہے۔ کوئی قبول کرلیتا ہے کوئی انکار کرتا ہے مگر وہ ان چیزوں سے بے پروا اپنے مشن میں لگا ہوا ہے۔

کتابیں تقسیم کرتے ہوئے کم و بیش دو گھنٹے گزر چکے ہیں۔ اب اس کے ہاتھوں میں آخری کتاب رہ گئی ہے۔ وہ اس سوچ میں تھا کہ یہ آخری کتاب کسے دی جائے۔ اس نے گلی میں آنے جانے والے کئی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انہیں کتاب دینے کی پیش کش کی، مگر انہوں نے تھینک یو کہہ کر انکار کیا اور آگے چل دیے۔
گلی میں ایک جگہ جہاں بہت سارے گھر ایک ہی ڈیزائن کے بنے ہوئے ہیں وہ ان میں سے ایک گھر کا انتخاب کرتا ہے اور اس کے دروازے پر جا کر گھنٹی بجاتا ہے ،کسی نے جواب نہ دیا۔ اس نے بار بار گھنٹی بجائی ،مگر اندر مکمل خاموشی تھی۔ نجانے اسے کیا ہوا۔ یہ اس کے طریق کار کے خلاف تھا کہ وہ کسی کے دروازے کو اس طرح بجائے مگر آج اس نے دروازے کو زور زور سے بجانا شروع کر دیا زور سے کہا: کوئی اندر ہے تو دروازہ کھولو۔

اندر بدستور مکمل خاموشی تھی۔ وہ مایوس ہونے لگا، اس نے کچھ سوچا اور آخری بار اپنی انگلی گھنٹی پر رکھ دی۔ گھنٹی بجتی رہی، بجتی رہی… اور آخر کار اسے اندر سے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔ اس کے دل کی حرکت تیز ہونے لگی۔چند لمحوں بعد آہستگی سے دروازہ کھلتا ہے۔

ایک بوڑھی خاتون چہرے پر شدید رنج و غم کے آثار لیے سامنے کھڑی تھی، کہنے لگی: ہاں میرے بیٹے! بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟

ننھے داعی نے مسکراتے ہوئے کہا: نہایت ہی معزز خاتون! اگر میں نے آپ کو بے وقت تنگ کیا ہے تو اس کے لیے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ دراصل میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے حقیقی اور سچی محبت کرتا ہے۔ آپ کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ میں کچھ کتابیں تقسیم کر رہا تھا۔ میرے پاس یہ آخری کتاب بچی ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ کتاب میں آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ اس کتاب میں کیا ہے؟ یہ آپ کو پڑھنے کے بعد معلوم ہو گا ، مگر اتنی بات میں کہے دیتا ہوں یہ کتاب آپ کو آپ کے حقیقی رب کے بارے میں بہت کچھ بتائے گی۔اسے پڑھ کر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے پیدا کرنے والے نے ہمیں کن مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ اور ہم اپنے رب اپنے خالق اور مالک کو کیسے راضی کر سکتے ہیں۔

بوڑھی عورت نے کتاب وصول کی اوربچے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: جیتے رہو بیٹا، جیتے رہو۔

ننھے داعی کا آج کے لیے مشن مکمل ہو چکا تھا، اس کو جتنی کتابیں تقسیم کرنا تھیں وہ کر چکا تھا۔ اس کا رخ اب اپنے گھر کی طرف تھا۔ یوں بھی شام کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ وہ ہنستا مسکراتا اپنے گھر واپس آ گیا۔
ہفتہ کے ایام جلد ہی گزر گئے ۔ آج ایک بار پھر جمعہ کا دن ہے۔ باپ بیٹا حسب معمول جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں ہیں۔ ننھے داعی کے والد نے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ نماز پڑھانے کے بعد حسب معمو ل حاضرین سے کہا کہ آپ میں سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہو یا کوئی بات کہنا چاہتا ہو تو اسے بر سر عام ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ وہ اٹھ کر بیان کر سکتا ہے۔

حاضرین میں تھوڑی دیر کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ آج کسی کے پاس کوئی خاص سوال نہیں۔ اچانک پچھلی صفوں پر بیٹھی ہوئی خواتین میں سے ایک بوڑھی خاتون کھڑی ہوتی ہے۔ وہ قدرے بلند آواز میں کہنا شروع کرتی ہے :

خواتین و حضرات! آپ لوگوں میں سے مجھے کوئی بھی نہیں پہچانتا نہ ہی آج سے پہلے میں کبھی اس مسجد میں آئی ہوں۔ میں تو گزشتہ جمعہ تک مسلمان بھی نہ تھی۔بلکہ میں نے اسلام قبول کرنے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔

چند ماہ گذرے میرے خاوند کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد میں اس دنیا میں بالکل تنہا تھی۔گزشتہ جمعہ کے روز موسم غیر معمولی ٹھنڈا تھا۔ وقفے وقفے سے ہلکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی۔ میں اس دنیا اور تنہائی سے تنگ آچکی تھی۔ دنیا میں میرا کوئی بھی نہ تھا۔ میں کتنے دنوں سے سوچ رہی تھی کہ میں خود کشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کیوں نہ کر لوں۔

جب میرا خاوند نہیں رہا تو میں اس دنیا میں رہ کر کیا کروں گی۔بالآخر گزشتہ جمعہ کو میں نے خود کشی کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ میں بازار گئی وہاں سے ایک نہایت مضبوط رسی خریدی ۔سیڑھی پر چڑھ کر چھت کے ایک شہتیــر سے رسی کو باندھا۔ پھر میں نے رسی کے ایک سرے سے پھندا بنایا، اگلا مرحلہ یہ تھا کہ کرسی کواپنے قریب کر کے مجھے اس پر پاؤں رکھنا تھا اورگلے میں پھندا ڈال کر کرسی کو ٹھوکر مار دینی تھی ۔اس طرح پھندہ میرے گلے میں اٹک جاتا اور میری زندگی کا خاتمہ ہو جاتا۔ جوںہی میں نے گلے میں رسی ڈالی، نیچے سے گھنٹی بجنے کی آواز آئی۔ پہلے تو میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، مگر گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ میں نے سوچا: میرا ملنے والا کون ہو سکتا ہے؟مدتیں گزر گئی ہیں مجھے کوئی ملنے کے لیے کبھی نہیں آیا۔
میں نے فیصلہ کیا کہ میں گھنٹی کو نظر انداز کر دوں اور خود کشی کرلوں۔ ادھر گھنٹی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ کوئی غیر مرئی طاقت مجھ سے کہہ رہی تھی کہ دیکھو دروازے پر کون ہے؟ لیکن ایک سوال بار بار میرے ذہن میں آ رہا تھا: اس دنیا میں تو میرا کوئی بھی نہیں پھر یہ گھنٹی دینے والا کون ہو سکتا ہے؟

اسی دوران کسی نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ میں نے سوچا:چلو کوئی بات نہیں، میں خود کشی کے پروگرام کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کر دیتی ہوں چنانچہ میں نے رسی کو گردن سے اتارا، کرسی کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی اور آہستہ آہستہ نچلی منزل کی طرف چل دی۔

میں نے دروازہ کھولا تو ایک بہت پیارے اور خوبصورت بچے کو دیکھا جو مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں ،مجھے دیکھ کر اسے یوں لگ رہا تھا کہ اسے کوئی بڑی نعمت مل گئی ہو۔ میں نے آج تک اس عمر کے بچے کے چہرے پر اتنی خوبصورت مسکراہٹ نہیں دیکھی ۔میں بتا نہیں سکتی کہ وہ بچہ مجھے کتنا پیارا لگا۔

اس کے منہ سے نکلنے والے کلمات نہایت پیارے اور دل کش تھے ۔جس انداز سے اس نے میرے ساتھ گفتگو کی وہ ناقابل فراموش تھی۔ اس نے مجھ سے کہا:اے معزز اور محترم خاتون!میں آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کو بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے حقیقی محبت کرتے ہیں اور آپ کا ہر لحاظ سے خیال رکھتے ہیں۔ اس نے ’’جنت میں جانے کا راستہ‘‘ نامی کتاب میرے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا : اسے اطمینان سے ضرور پڑھیے۔

وہ خوبصورت اور روشن چہرے والا بچہ جدھر سے آیاتھا ادھر ہی واپس چلا گیا، مگر میرے دل میں شدید ہلچل پیدا کر گیا۔ میں نے دروازہ بند کیا اور نچلی منزل پر ہی بیٹھ کر اس کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھنے لگی۔ میں کتاب پڑھتی چلی گئی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ کتاب میرے لیے اور صرف میرے لیے لکھی گئی ہے۔ میں نے جیسے ہی کتاب ختم کی میرے ذہن میں انقلاب آچکا تھا۔ مجھے روشنی مل گئی تھی۔ میں اوپر والی منزل میں گئی۔ چھت سے رسی کھولی اور کرسی کو پیچھے ہٹا دیا۔ اب مجھے ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہ رہی تھی۔
معزز حاضرین! اس نے لوگوں سے مخاطب ہو کرکہا: میں نہایت سعادت مند‘ اور خوش بخت ہوں کہ میں نے اپنے حقیقی رب کو پہچان لیا ہے۔ میں نے فطرت کو پا لیا ہے ۔ میں اب الحمدللہ! مسلمان ہو چکی ہوں۔ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت سے نوازا۔ کتاب کے آخری صفحہ پر اس مرکز کا ایڈریس دیا ہوا تھا میں یہاں اس لیے آئی ہوں کہ میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرسکوں، خصوصاً اس ننھے سے داعی کا جو میرے پاس نہایت ہی مناسب وقت پر آیا۔ بس یہ چندلمحوں کی با ت تھی، اگر وہ نہ آتا تو میں جہنم کا ایندھن بننے ہی والی تھی۔ !!

لوگ حیران و ششدر ہو کر بڑھیا کی بات سن رہے تھے، جب اس کی بات ختم ہوئی تو مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں شاید ہی کوئی آنکھ ہو جس میں آنسو نہ جھلک رہے ہوں۔مسجد میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ امام مسجد منبر سے نیچے اترے، سامنے والی صف میں ان کا ننھا داعی بیٹا بیٹھا ہوا تھا۔

انہوں نے روتے ہوئے اسے اپنے بازوؤں میں لیا اور سینے سے لگا لیا۔وہ کہہ رہے تھے: بیٹے! مجھے تم پر فخر ہے۔ تم صحیح معنوں میں ننھے داعی اور مجاہد ہو۔ مسجد میں شاید ہی کوئی شخص ہو جس کی یہ تمنا نہ ہو کہ کاش اس کا بیٹا بھی اس قسم کا داعی ہوتا!!!۔