Friday 25 March 2016

برکت کی صورتیں


برکت کو بیان نہیں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جب آپ آمدن و اخراجات کے حساب کتاب کے چکر میں پڑے بغیر اور کسی ٹینشن کے سوا اپنا کچن چلا رہے ہوں تو اسے برکت کہتے ہیں۔ پھر چاہے آپ کی آمدن ایک لاکھ ہو یا ایک ہزار۔ اس کی سب سے بڑی نشانی دل کا اطمینان ہوتا ہے جو کہ بڑے بڑے سیٹھوں اور سرمایہ داروں کو نصیب نہیں ہوتا۔

اگر برکت دیکھنی ہو تو سخت گرمیوں میں روڈ کھودتے کسی مزدور کو کھانے کے وقفہ میں دیکھ لیں جب وہ دیوار کی اوٹ لے کر اپنی چادر پھیلا کر بیٹھتا ہے، اپنا ٹفن کھول کر، اس پر روٹی بچھاتا ہے، پھر اچار کی چند قاشیں نکال کر اس پر ڈال دیتا ہے اور بسم اللہ پڑھ کر نوالہ توڑتا ہے۔ سچی میں اس کیفیت میں جو قرار اور دلی اطمینان اس کو محسوس ہو رہا ہوتا ہے وہ کسی موٹی توند والے لکھ پتی سیٹھ کو میک ڈونلڈ اور کے ایف سی کے مہنگے برگر کھا کر بھی نصیب نہیں ہوتا۔

برکت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ آپ کو اور آپ کے گھر کے افراد کو کسی بڑی بیماری یا مصیبت سے محفوظ رکھتا ہے۔ انسان، اسپتال اور ڈاکٹروں کے چکروں سے بچا رہتا ہے۔ یوں اس کی آمدن پانی کی طرح بہہ جانے سے محفوظ رہ جاتی ہے۔

برکت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ کی بیوی قناعت پسند اور شکرگذار ہے۔ وہ تھوڑے پر راضی ہوجاتی ہے، کپڑوں، میک اپ اور دیگر فرمائشوں سے آپ کی جیب پر بوجھ نہیں بنتی، یوں آپ کو اطمینان قلب کے ساتھ ساتھ مالی مشکلوں سے بھی بچالیتی ہے۔

برکت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ کو اللہ نے نیک اور شکرگذار اولاد عطا کی ہے۔

برکت کا تعلق مادی ذرائع کے برعکس اللہ کی غیبی امداد سے ہے۔ ایسی غیبی امداد جو نہ صرف آپ کے قلب کو اطمینان کا سرور دے بلکہ آپ کی ضروریات بھی آپ کی آمدن کے اندراندر پوری ہوجائیں۔

یہ تو تھی مال اور آمدن میں برکت۔ اسی طرح وقت اور زندگی میں برکت ہوتی ہے۔ وقت میں برکت یہ ہے کہ آپ کم وقت میں زیادہ اور نتیجہ خیز کام کریں، آپ کا وقت ادھرادھر فضول چیزوں میں ضایع نہ ہو۔ اسی طرح عمر میں برکت یہ ہے کہ آپ کی زندگی برے کاموں میں خرچ نہ ہو رہی ہو بلکہ اچھے کاموں میں صرف ہو رہی ہو۔

کم کھانا، زیادہ افراد میں پورا پڑ جانا بھی برکت ہے۔ آپ کی کم محنت کا پھل زیادہ آمدن یا پیداوار کی صورت میں نکلنا بھی برکت ہے۔

یوں سمجھیں کہ برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے کے لیے ’’ٹِپ‘‘ ہے جو دس روپے بھی ہوسکتی ہے اور دس ہزار یا دس لاکھ بھی۔

برکت کے حصول کا نہایت آسان طریقہ صدقہ کرنا ہے یا کسی یتیم کی کفالت کرنا ہے۔ آپ اپنے خاندان میں یا محلہ میں دیکھیں کوئی یتیم ہو، اس کو اپنا بیٹا یا بیٹی بنالیں، اس کی پرورش اسی طرح کریں جیسے اپنی سگی اولاد کی کی جاتی ہے پھر دیکھیں کس طرح برکت آپ کے گھر کا چھپر پھاڑ کر آتی ہے۔

بھول جائیں کہ جس گھر میں لوگ دن چڑھے تک سوتے رہتے ہوں وہاں کبھی برکت آئے گی۔ کیوں کہ نبیء مہربانﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ میری امت کے لیے دن کے اولین حصے میں برکت رکھ دی گئی ہے۔ اسی طرح شوقیہ کتا پالنا، تصویریں اور میوزک بھی برکت کے اٹھ جانے کے اسباب میں سے ہیں۔ اس کے علاوہ لباس اور جسم کی پاکی اور حلال ذریعہ آمدن برکت کے حصول کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ کوئی سودی اور ناجائز کاروبار میں ملوث ہو یا جسم اور کپڑوں کو ناپاک رکھتا ہو پھر برکت کا امیدوار بھی ہو تو اس کی سادہ لوحی پر حیران ہی ہوا جاسکتا ہے۔

Wednesday 23 March 2016

خقیقت

بڑے غصے سے میں گھر سے چلا آیا ..
اتنا غصہ تھا غلطی سے پاپا کے جوتے پہن کے نکل گیا
میں آج بس گھر چھوڑ دوں گا، اور تبھی لوٹوگا جب بہت بڑا آدمی بن جاؤں گا ...
جب موٹر سائیکل نہیں دلوا سکتے تھے، تو کیوں انجینئر بنانے کے خواب دیکھتے ہیں .....
آج میں پاپا کا پرس بھی اٹھا لایا تھا .... جسے کسی کو ہاتھ تک نہ لگانے دیتے تھے ...
مجھے پتہ ہے اس پرس میں ضرور پیسوں کے حساب کی ڈائری ہوگی ....
پتہ تو چلے کتنا مال چھپا رکھاہے .....
ماں سے بھی ...
اسے ہاتھ نہیں لگانے دیتے کسی کو ..
جیسے ہی میں عام راستے سے سڑک پر آیا، مجھے لگا جوتوں میں کچھ چبھ رہا ہے ....
میں نے جوتا نکال کر دیکھا .....
میری ایڑی سے تھوڑا سا خون رس آیا تھا ...
جوتے کی کوئی کیل نکلی ہوئی تھی، درد تو ہوا پر غصہ بہت تھا ..
اور مجھے جانا ہی تھا گھر چھوڑ کر ...
جیسے ہی کچھ دور چلا ....
مجھے پاوں میں گیلا سا محسوس ہوا، سڑک پر پانی پھیلا ہوا تھا ....
پاؤں اٹھا کے دیکھا تو جوتے کے تلوےپھٹے ہوئے تھے .....
جیسے تیسے لنگڑا لنگڑاكر بس سٹاپ پہنچا تو پتہ چلا بس ایک گھنٹہ لیٹ ہے۔۔۔
میں نے سوچا کیوں نہ پرس کی تلاشی لی جائے ....
پرس کھولا، ایک پرچی دکھائی دی، لکھا تھا ..
لیپ ٹاپ کے لئے 40 ہزار قرضے لئے
پر لیپ ٹاپ تو گھر میں صرف میرے پاس ہے؟
دوسری ایک چٹ مڑی تڑی دیکھی، اس میں ان کے آفس کی کسی شوق ڈے کا لکھا تھا
انہوں نے شوق لکھا "اچھا جوتے پہننا" ......
اوہ .... اچھے جوتے پہننا ؟؟؟
پر انکے جوتے تو ........... !!!!
ماں گزشتہ چار ماہ سے ہر پہلی کو کہتی کہ نئے جوتے لے لیجئے ...
اور وہ ہر بار کہتے "ابھی تو 6 ماہ جوتے اور چل چاینگے .."
میری سمجھ میں آب آیا کہ کیسے چل جایئینگے
...... تیسری پرچی ..........
پرانا سکوٹر دیجئے ایکسچینج میں نئی موٹر سائیکل لے جائیں ...
پڑھتے ہی دماغ گھوم گیا .....
پاپا کا سکوٹر .............
اوه خدایا
میں گھر کی طرف بگٹٹ بھاگا ........
اب پاوں میں وہ کیل نہیں چبھ رہی تھی ....
گھر پہنچا .....
نہ پاپا تھے نہ سکوٹر ..............
اوه نو
میں سمجھ گیا کہاں گئے ....
میں بھاگا .....
اور
ایجنسی پر پہنچا ......
پاپا وہیں تھے ...............
میں نے ان کو گلے سے لگا لیا، اور آنسووں سے ان کا کندھا بھیگ گیا ..
..... نہیں ... پاپا نہیں ........ مجھے نہیں چاہئے موٹر سائیکل ...
بس آپ نئے جوتے لے لو اور مجھے اب بڑا آدمی بننا ہے ..
وہ بھی آپ کے طریقے سے .....
۔
"ماں" ایک ایسی بینک ہے جہاں آپ ہر احساس اور دکھ جمع کر سکتے ہیں ...
اور
"پاپا" ایک ایسا کریڈٹ کارڈ ہے جو بیلنس نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے خواب
پورے کرنے کی کوشش کرتا ہے.

Meet me at Facebook
Http://www.Facebook.com/zebtext

Thursday 17 March 2016

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ

ایک دن بادشاہ نے اپنے تین وزراء کو دربار میں بلایا اور تینوں کو حکم دیا کہ تینوں ایک ایک تھیلا لے کر باغ میں داخل ہوں۔
اور وہاں سے بادشاہ کے لیے مختلف اچھےاچھے پھل جمع کریں۔
وزراء بادشاہ کے اس عجیب حکم پر حیران رہ گئے اور تینوں ایک ایک تھیلا پکڑ کر الگ الگ باغ میں داخل ہوگئے۔
پہلے وزیر نے کوشش کی کہ بادشاہ کے لیے اسکی پسند کے مزیدار اور تازہ پھل جمع کرے اور اس نے کافی محنت کے بعد بہترین اور تازہ پھلوں سے تھیلا بھر لیا۔
دوسرے وزیر نے خیال کیا کہ بادشاہ ایک ایک پھل کا خود تو جائزہ نہیں لے گا کہ کیسا ہے اور نہ ہی پھلوں میں فرق دیکھے گا۔
اس لیے اس نے بغیر فرق دیکھے جلدی جلدی ہر قسم کے تازہ اور کچے اور گلے سڑے پھلوں سے اپنا تھیلا بھر لیا۔
اور تیسرے وزیر نے سوچا کہ بادشاہ کی توجہ صرف تھیلے کے بھرنے پر ہوگی۔ اس کے اندر کیا ہے، اسے بادشاہ نہیں دیکھے گا۔
یہی سوچ کر وزیر تھیلے میں گھاس پُھوس اور پتے بھر لیے اور محنت سے بچ گیا اور وقت بچایا۔
دوسرے دن بادشاہ تینوں وزراء کو اپنے تھیلوں سمیت دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔
جب تینوں دربار میں حاضر ہوئے تو بادشاہ نے تھیلے کھول کر بھی نہ دیکھے اور حکم دیا کہ تینوں کو ان کے تھیلوں سمیت 1 ماہ کے لیے دوردراز جیل میں قید کر دو۔
اب اس دوردراز جیل میں تینوں کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں تھا، سواۓ اس تھیلے کے جو انھوں نے جمع کیا تھا۔
اب پہلا وزیر جس نے اچھے اچھے پھل چن کر جمع کیے تھے، وہ مزے سے اپنے انہیں پھلوں پر گزارہ کرتا رہا۔
یہاں تک کے 1 ماہ باآسانی گزر گیا۔
اور دوسرا وزیر جس نے بغیر دیکھے تازہ خراب تمام پھل جمع کیے تھے۔ اس کے لیے بڑی مشکل پیش آئی کچھ دن تو تازہ پھل کھا لیے لیکن پھر کچے اور گلے سڑے پھل کھانے پڑے، جس سے وہ بہت زیادہ بیمار ہوگیا اور اسے بہت تکلیف اٹھانی پڑی۔
اور تیسرا وزیر جس نے اپنے تھیلے میں صرف گھاس پُھوس ہی جمع کیا تھا۔
وہ کچھ دن بعد ہی بھوک سے مر گیا کیونکہ اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔
اب
آپ اپنے آپ سے پوچھیے
آپ کیا جمع کر رہے ہیں ؟
آپ اس وقت اس باغ میں ہیں۔
جہاں سے آپ چاہیں تو نیک اعمال اپنے لیے جمع کریں اور چاہیں تو خراب اعمال؟
مگر یاد رہے جب بادشاہ کا حکم صادر ہوگا،
تو آپ کو اپنی جیل قبر میں ڈال دیا جاۓ گا۔

اس جیل میں آپ اکیلے ہونگے جہاں آپ کے ساتھ صرف آپ کے اعمال کی تھیلی ہوگی۔ تو جو آپ نے جمع کیا ہوگا، وہی آپ کو وہاں کام دے گا۔
تو آج تھوڑی سی محنت کرکے اچھی اچھی چیزیں یعنی نیک اعمال جمع کرلیں اور وہاں آسانی اور آرام والی زندگی گزاریں۔.

ابھی ہمارے پاس وقت بھی ہے اور اللہ پاک نے سب معذریوں سے بھی دور رکھا ہے اسے دن میجں پانچ بار تو یاد کر لیا کرو بڑے بڑے اعمال کرنے کی وہ خود ہی توفیق عطا کر دے گا

اللہ پاک ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

Sunday 6 March 2016

سلمان تاثیر کون تھا؟

سلمان تاثیر کون تھا؟؟؟ حقائق کی روشنی میں ۔۔۔۔۔۔

1 : مقتول سلمان تاثیر ملعون سلمان رشدی کا سگا خالہ زاد بھائی تھا۔

2 : سلمان تاثیر کی ماں ایک عیسائی عورت تھی۔

3 : سلمان تاثیر کے باپ کا نام محمد دین تھا۔ لیکن وہ نام "محمدﷺ "  سے اس قدر نفرت کیا کرتا تھا کہ اپنا نام " ایم ڈی تاثیر" لکھا کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں جس کو مانتا ہی نہیں اس کا نام اپنے نام کے ساتھ کیوں لکھوں؟۔

4 : سلمان تاثیر سؤر کا گوشت کھانے کا زبردست شوقین تھا۔ ( بحوالہ کتاب سٹرینجر ٹو ھسٹری ۔ مصنف آتش تاثیر ولد سلمان تاثیر)

5  : سلمان تاثیر نے عمر بھر ایک بھی نماز نہیں پؑڑھی تھی۔  ( بحوالہ کتاب سٹرینجر ٹو ھسٹری ۔ مصنف آتش تاثیر ولد سلمان تاثیر)

6 : سلمان تاثیر نے کبھی بھی  رمضان کے روزے نہیں رکھے تھے ۔  ( بحوالہ کتاب سٹرینجر ٹو ھسٹری ۔ مصنف آتش تاثیر ولد سلمان تاثیر)

7 : سلمان تاثیر اور اس کا خاندان ایک لادین اور سیکولر زھنیت کا حامل تھا اس کو سنہ 2008 میں ایک سیکولر حکمران  جماعت پی پی پی کے صدر آصف زرداری نے اپنے دور حکومت میں پنجاب کا گورنر بنایا تھا۔ یہ اقتدار مین آنے کے دن سے لیکر اپنی موت تک ملک کو سیکولر  سٹیٹ یعنی لادین ریاست بنانے کے لئے کوشش کرتا رھا۔ اس کے دور اقتدار کے دوران گورنر ھاؤس ایسے افراد کی آماجگاہ رھا جو سیکولر اور لادین سوچ کے حامل تھے۔ گورنر ھاؤس میں انتہائی مہنگی غیرملکی شرابوں کو محفلوں میں پانی کی طرح بہایا جاتا۔

8 : یہ سیکولرازم کو روشن خیالی کا نام دیا کرتا تھا اور اپنی تقاریر اور انٹرویوز میں پاکستان کو  روشن خیال ملک بنانے کے عزم کو دہراتا رھتا تھا۔

9 : یہ توھین رسالت ﷺ کے قانون زیردفعہ  295 سی تعزیرات پاکستان کے خاتمے کے لئے بھرپور کوشش کرتا رھا۔

10 : اخبارات اور ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے محتاط انداز میں اس قانون پر تنقید کیا کرتا جبکہ نجی محفلوں میں یہ شدید گستاخی کا ارتکاب کرتا رھا۔

11 :  وہ توھین رسالتﷺ کے خلاف قانون کے علاوہ قادیانیوں کو کافر قرار دئیے جانے والے قانون کی بھی مخالفت کیا کرتا تھا اسے غیر انسانی قانون قرار دیا کرتا تھا۔

12 : سنہ 2009 جون میں ایک غیر مسلم عورت کے خلاف توھین رسالت کا مقدمہ درج ھوا۔ اس عورت نے دوران تفتیش اور عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے جرم کو تسلیم کیا جس پر سیشن جج نوید اقبال نے 8 نومبر 2010 کو اسے سزائے موت سنا دی۔

یہ موقع گورنر کے لئے سنہری موقع ثابت ھوا اور وہ اس قانون کو ختم کروانے اور اس خاتون کو رہا کروانے کے لئے بھرپور طریقے سے متحرک ھوگیا اور کھلے عام اس قانون کی باقاعدہ مخالفت پر اتر آیا۔ اخبارات و جرائد میں انٹرویو دیتے ھوئے اس قانون پر شدید تنقید کرنے لگ گیا۔

13 : 23 دسمبر سنہ 2010 میں ایک میگزین نیوزلائن کو انٹرویو دیتے ھوئے کہا" اگر میری ذاتی رائے جاننا چاھتے ھیں تو میں اس قانون کو پسند نہین کرتا ، میرے علاوہ بھی بہت سے لوگ ہیں جو اس "کالے قانون" کو پسند نہین کرتے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ توھین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہنا ملکی قوانین اور آئین  کی انتہائی شدید توھین تھی۔

14 : دنیا بھر میں قانون ھے کہ عدالت سے کسی بھی مقدمے میں ملنے والی سزا کے خلاف اپیل اس عدالت سے بڑی عدالتوں میں مرحلہ وار کی جاتی ھے۔(  یعنی سیشن کورٹ سے سزا ملنے  کے بعد ھائی کورٹ میں اپیل کی جاتی ھے۔ اگر ھائی کورٹ سیشن کورٹ کی سزا بحال رکھتی ھے تو پھر سپریم کورٹ میں اپیل کی جاتی ہے اگر سپریم کورٹ بھی سزا بحال رکھتی ھے تو پھر سربراہ مملکت سے رحم کی اپیل کی جاتی ھے ) ۔۔۔۔۔ لیکن

15 : گورنر صاحب نے قانون اور دنیا کی روایت کے برعکس کسی بھی عدالت سے اپیل خارج ھوئے بغیر براہ راست 20 نومبر 2010 کو سزا ملنے کے ٹھیک 12 دن بعد اس خاتون سے ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ میں جا کر ملاقات کی اور صدر سے رحم کی اپیل دائر کر دی تھی۔

یہ قانون کے ساتھ کھلا مذاق تھا۔ یوں محسوس  ھوتا تھا جیسے گورنر کو اس عورت کو رہا کروانے کی انتہائی جلدی تھی۔ اس کے لئے دوسری سب سرکاری مصروفیات اس کیس کے سامنے بے معنی ھوکر رہ گئی تھیں۔ پریس کانفرنسز انٹرویوز میں صرف اس خاتون کو چھڑانے کی باتیں ، اس قانون کو ختم کرانے کی باتیں وغیرہ۔۔۔ اس کے اپنے الفاظ میں تھا کہ " میں نے خود تفتیش کی ھے کہ عورت بے گناہ ھے "۔۔۔

16 : یہ عام اور فطری سی بات ھے کہ صاحب اقتدار شخصیات اپنے دور اقتدار میں شدید قسم کے رعونت و تکبر میں مبتلا ھو جاتی ھیں۔ اپنے اردگرد ھزاروں محافظوں اوراشاروں پر ناچنے والے لاتعداد نوکروں کی فوج کی موجودگی ھر قسم کے خوف سے آزاد کر دیتی ھے۔  اپنے تکبر اور طاقت کے نشے میں یہ حضرات خدا کی ھستی کو بھی نعوذباللہ لوگوں کی خام خیالی سمجھنے لگتے ھیں حتی کہ مذاھب کا مذاق اڑانے لگتے ھیں۔ سلمان تاثیر کیمروں کے سامنے تو محتاط الفاظ میں تنقید کرتا لیکن تصور کیا جا سکتا ھے کہ آف دی ریکارڈ نشے میں ٹن ھوکر وہ کس قسم کی ھرزہ سرائی کیا کرتا ھوگا۔

17 : گورنر صاحب کے سرکاری محافظ جو ھر وقت اس کے ساتھ سائے کی طرح رھتے تھے  یقینا"  وہ اس کی تمام باتوں اور توھین آمیز کلمات کو سنتے اور مشکل سے برداشت کرتے ھونگے۔ چنانچہ جب اس معاملے میں گورنر حد سے گذرنے لگا تو ان میں سے ایک نے اپنے مذھبی جذبات کو ٹھیس پہمچنے پر اشتعال میں آ کر قتل کر دیا۔ یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا۔ کسی بھی انسان کے قتل کی ھم حمایت نہیں کرتے۔ لیکن جب معاملہ مذھبی جبات کو ٹھیس پہنچانے کا ھو تو اس کا ردعمل بھی اسی طرح کا متوقع ھوتا ھے۔

18 :  گورنر کے خلاف علماء نے توھین رسالت ﷺ کے فتوے لگائے تھے اس لئے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے کوئی بھی عالم دین تیار نہیں ھو رھا تھا۔ حتی کہ خود گورنر ھاؤس کی سرکاری مسجد کے  سرکاری امام، بادشاھی مسجد کے سرکاری امام آزاد صاحب سے حکومت نے جنازہ پڑھانے کی درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ ھمیں ملازمت سے نکال دیجئیے ھمیں منظور ھے لیکن ھم اس کی نمازہ جنازہ نہیں پڑھائیں گے۔  اس پر ایک نامعلوم مولوی صاحب افضل چشتی کو نماز جنازہ کے لئے راضی کیا گیا جسے آج بھی کوئی نہین جانتا۔

زندگى کی خقیقت

🍀 تین نوجوان ملک سے باھر سفر پر جاتے ھیں اور وھاں ایک ایسی عمارت میں ٹھہرتے ھیں جو 75 منزلہ ھے..

🍀 ان کو 75 ویں منزل پر کمرہ ملتا ھے..

🍀 ان کو عمارت کی انتظامیہ باخبر کرتی ھے کہ یہاں کے نظام کے مطابق رات کے 10 بجے کے بعد لفٹ کے دروازے بند کر دیے جاتے ھیں

🍀 لھذا ھر صورت آپ کوشش کیجیے کہ دس بجے سے پہلے آپ کی واپسی ممکن ھو

🍀 کیونکہ اگر دروازے بند ھوجائیں تو کسی بھی کوشش کے باوجود لفٹ کھلوانا ممکن نہ ھوگا..

🍀 پہلے دن وہ تینوں سیر و سیاحت کے لیے نکلتے ھیں تو رات 10 بجے سے پہلے واپس لوٹ آتے ھیں

🍀 مگر دوسرے دن وہ لیٹ ھوجاتے ھیں..

🍀 اب لفٹ کے دروازے بند ھو چکے تھے..

🍀 ان تینوں کو اب کوئی راہ نظر نہ آئی کہ کیسے اپنے کمرے تک پہنچا جائے جبکہ کمرہ 75 منزل پر ھے..

🍀 تینوں نے فیصلہ کیا کہ سیڑھیوں کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ تو نہیں ھے تو یھاں سے ھی جانا پڑے گا..

🍀 ان میں سے ایک نے کہا..
" میرے پاس ایک تجویز ھے..

🍀 یہ سیڑھیاں ایسے چڑھتے ھوئے ھم سب تھک جائیں گے..

🍀 ایسا کرتے ھیں کہ اس طویل راستے میں ھم باری باری ایک دوسرے کو قصے سناتے ھوئے چلتے ھیں..

🍀 25 ویں منزل تک میں کچھ قصے سناوں گا
اس کے بعد باقی 25 منزل تک دوسرا ساتھی قصے سنائے گا
اور پھر آخری 25 منزل تیسرا ساتھی..

🍀 اس طرح ھمیں تھکاوٹ کا زیادہ احساس نہیں ھوگا اور راستہ بھی کٹ جائے گا.. "

🍀 اس پر تینوں متفق ھوگئے..

🍀 پہلے دوست نے کہا..
" میں تمہیں لطیفے اور مذاحیہ قصے سناتا ھوں جسے تم سب بہت انجوائے کروگے..

🍀 " اب تینوں ھنسی مذاق کرتے ھوئے چلتے رھے..

🍀 جب 25 ویں منزل آگئی تو دوسرے ساتھی نے کہا..
" اب میں تمہیں قصے سناتا ھوں مگر میرے قصے سنجیدہ اور حقیقی ھونگیں.. "

🍀 اب 25 ویں منزل تک وہ سنجیدہ اور حقیقی قصے سنتے سناتے ھوئے چلتے رھے..

🍀 جب 50 ویں منزل تک پہنچے تو تیسرے ساتھی نے کہا..
" اب میں تم لوگوں کو کچھ غمگین اور دکھ بھرے قصے سناتا ھوں.. "

🍀 جس پر پھر سب متفق ھوگئے اور غم بھرے قصے سنتے ھوئے باقی منزلیں بھی طے کرتے رھے..

🍀 تینوں تھک کر جب دروازے تک پہنچے تو تیسرے ساتھی نے کہا..
" میری زندگی کا سب سے بڑا غم بھرا قصہ یہ ھے کہ ھم کمرے کی چابی نیچے استقبالیہ پر ھی چھوڑ آئے ھیں.. "

🍀 یہ سن کر تینوں پر غشی طاری ھوگئی..

🍀 اگر دیکھا جائے تو ھم لوگ بھی اپنی زندگی کے 25 سال ھنسی مذاق ' کھیل کود اور لہو و لعب میں گزار دیتے ھیں..

🍀 پھر باقی کے 25 سال شادی ' بچے ' رزق کی تلاش ' نوکری جیسی سنجیدہ زندگی میں پھنسے رھتے ھیں..

🍀 اور جب اپنی زندگی کے 50 سال مکمل کر چکے ھوتے ھیں تو زندگی کے باقی آخری سال بڑھاپے کی مشکلات ' بیماریوں ' ھوسپٹلز کے چکر ' بچوں کے غم اور ایسی ھی ھزار مصیبتوں کے ساتھ گزارتے ھیں..

🍀 یھاں تک کہ جب موت کے دروازے پر پہنچتے ھیں تو ھمیں یاد آتا ھے کہ "چابی" تو ھم ساتھ لانا ھی بھول گئے..

🍀 رب کی رضامندی کی چابی..

🍀 جس کے بغیر یہ سارا سفر ھی بےمعنی اور پچھتاوے بھرا ھوگا..

🍀 اس لیے اس سے پہلے کہ آپ موت کے دروازے تک پہنچیں ' اپنی چابی حاصل کرلیں.