Sunday 6 March 2016

سلمان تاثیر کون تھا؟

سلمان تاثیر کون تھا؟؟؟ حقائق کی روشنی میں ۔۔۔۔۔۔

1 : مقتول سلمان تاثیر ملعون سلمان رشدی کا سگا خالہ زاد بھائی تھا۔

2 : سلمان تاثیر کی ماں ایک عیسائی عورت تھی۔

3 : سلمان تاثیر کے باپ کا نام محمد دین تھا۔ لیکن وہ نام "محمدﷺ "  سے اس قدر نفرت کیا کرتا تھا کہ اپنا نام " ایم ڈی تاثیر" لکھا کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں جس کو مانتا ہی نہیں اس کا نام اپنے نام کے ساتھ کیوں لکھوں؟۔

4 : سلمان تاثیر سؤر کا گوشت کھانے کا زبردست شوقین تھا۔ ( بحوالہ کتاب سٹرینجر ٹو ھسٹری ۔ مصنف آتش تاثیر ولد سلمان تاثیر)

5  : سلمان تاثیر نے عمر بھر ایک بھی نماز نہیں پؑڑھی تھی۔  ( بحوالہ کتاب سٹرینجر ٹو ھسٹری ۔ مصنف آتش تاثیر ولد سلمان تاثیر)

6 : سلمان تاثیر نے کبھی بھی  رمضان کے روزے نہیں رکھے تھے ۔  ( بحوالہ کتاب سٹرینجر ٹو ھسٹری ۔ مصنف آتش تاثیر ولد سلمان تاثیر)

7 : سلمان تاثیر اور اس کا خاندان ایک لادین اور سیکولر زھنیت کا حامل تھا اس کو سنہ 2008 میں ایک سیکولر حکمران  جماعت پی پی پی کے صدر آصف زرداری نے اپنے دور حکومت میں پنجاب کا گورنر بنایا تھا۔ یہ اقتدار مین آنے کے دن سے لیکر اپنی موت تک ملک کو سیکولر  سٹیٹ یعنی لادین ریاست بنانے کے لئے کوشش کرتا رھا۔ اس کے دور اقتدار کے دوران گورنر ھاؤس ایسے افراد کی آماجگاہ رھا جو سیکولر اور لادین سوچ کے حامل تھے۔ گورنر ھاؤس میں انتہائی مہنگی غیرملکی شرابوں کو محفلوں میں پانی کی طرح بہایا جاتا۔

8 : یہ سیکولرازم کو روشن خیالی کا نام دیا کرتا تھا اور اپنی تقاریر اور انٹرویوز میں پاکستان کو  روشن خیال ملک بنانے کے عزم کو دہراتا رھتا تھا۔

9 : یہ توھین رسالت ﷺ کے قانون زیردفعہ  295 سی تعزیرات پاکستان کے خاتمے کے لئے بھرپور کوشش کرتا رھا۔

10 : اخبارات اور ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے محتاط انداز میں اس قانون پر تنقید کیا کرتا جبکہ نجی محفلوں میں یہ شدید گستاخی کا ارتکاب کرتا رھا۔

11 :  وہ توھین رسالتﷺ کے خلاف قانون کے علاوہ قادیانیوں کو کافر قرار دئیے جانے والے قانون کی بھی مخالفت کیا کرتا تھا اسے غیر انسانی قانون قرار دیا کرتا تھا۔

12 : سنہ 2009 جون میں ایک غیر مسلم عورت کے خلاف توھین رسالت کا مقدمہ درج ھوا۔ اس عورت نے دوران تفتیش اور عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے جرم کو تسلیم کیا جس پر سیشن جج نوید اقبال نے 8 نومبر 2010 کو اسے سزائے موت سنا دی۔

یہ موقع گورنر کے لئے سنہری موقع ثابت ھوا اور وہ اس قانون کو ختم کروانے اور اس خاتون کو رہا کروانے کے لئے بھرپور طریقے سے متحرک ھوگیا اور کھلے عام اس قانون کی باقاعدہ مخالفت پر اتر آیا۔ اخبارات و جرائد میں انٹرویو دیتے ھوئے اس قانون پر شدید تنقید کرنے لگ گیا۔

13 : 23 دسمبر سنہ 2010 میں ایک میگزین نیوزلائن کو انٹرویو دیتے ھوئے کہا" اگر میری ذاتی رائے جاننا چاھتے ھیں تو میں اس قانون کو پسند نہین کرتا ، میرے علاوہ بھی بہت سے لوگ ہیں جو اس "کالے قانون" کو پسند نہین کرتے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ توھین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہنا ملکی قوانین اور آئین  کی انتہائی شدید توھین تھی۔

14 : دنیا بھر میں قانون ھے کہ عدالت سے کسی بھی مقدمے میں ملنے والی سزا کے خلاف اپیل اس عدالت سے بڑی عدالتوں میں مرحلہ وار کی جاتی ھے۔(  یعنی سیشن کورٹ سے سزا ملنے  کے بعد ھائی کورٹ میں اپیل کی جاتی ھے۔ اگر ھائی کورٹ سیشن کورٹ کی سزا بحال رکھتی ھے تو پھر سپریم کورٹ میں اپیل کی جاتی ہے اگر سپریم کورٹ بھی سزا بحال رکھتی ھے تو پھر سربراہ مملکت سے رحم کی اپیل کی جاتی ھے ) ۔۔۔۔۔ لیکن

15 : گورنر صاحب نے قانون اور دنیا کی روایت کے برعکس کسی بھی عدالت سے اپیل خارج ھوئے بغیر براہ راست 20 نومبر 2010 کو سزا ملنے کے ٹھیک 12 دن بعد اس خاتون سے ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ میں جا کر ملاقات کی اور صدر سے رحم کی اپیل دائر کر دی تھی۔

یہ قانون کے ساتھ کھلا مذاق تھا۔ یوں محسوس  ھوتا تھا جیسے گورنر کو اس عورت کو رہا کروانے کی انتہائی جلدی تھی۔ اس کے لئے دوسری سب سرکاری مصروفیات اس کیس کے سامنے بے معنی ھوکر رہ گئی تھیں۔ پریس کانفرنسز انٹرویوز میں صرف اس خاتون کو چھڑانے کی باتیں ، اس قانون کو ختم کرانے کی باتیں وغیرہ۔۔۔ اس کے اپنے الفاظ میں تھا کہ " میں نے خود تفتیش کی ھے کہ عورت بے گناہ ھے "۔۔۔

16 : یہ عام اور فطری سی بات ھے کہ صاحب اقتدار شخصیات اپنے دور اقتدار میں شدید قسم کے رعونت و تکبر میں مبتلا ھو جاتی ھیں۔ اپنے اردگرد ھزاروں محافظوں اوراشاروں پر ناچنے والے لاتعداد نوکروں کی فوج کی موجودگی ھر قسم کے خوف سے آزاد کر دیتی ھے۔  اپنے تکبر اور طاقت کے نشے میں یہ حضرات خدا کی ھستی کو بھی نعوذباللہ لوگوں کی خام خیالی سمجھنے لگتے ھیں حتی کہ مذاھب کا مذاق اڑانے لگتے ھیں۔ سلمان تاثیر کیمروں کے سامنے تو محتاط الفاظ میں تنقید کرتا لیکن تصور کیا جا سکتا ھے کہ آف دی ریکارڈ نشے میں ٹن ھوکر وہ کس قسم کی ھرزہ سرائی کیا کرتا ھوگا۔

17 : گورنر صاحب کے سرکاری محافظ جو ھر وقت اس کے ساتھ سائے کی طرح رھتے تھے  یقینا"  وہ اس کی تمام باتوں اور توھین آمیز کلمات کو سنتے اور مشکل سے برداشت کرتے ھونگے۔ چنانچہ جب اس معاملے میں گورنر حد سے گذرنے لگا تو ان میں سے ایک نے اپنے مذھبی جذبات کو ٹھیس پہمچنے پر اشتعال میں آ کر قتل کر دیا۔ یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا۔ کسی بھی انسان کے قتل کی ھم حمایت نہیں کرتے۔ لیکن جب معاملہ مذھبی جبات کو ٹھیس پہنچانے کا ھو تو اس کا ردعمل بھی اسی طرح کا متوقع ھوتا ھے۔

18 :  گورنر کے خلاف علماء نے توھین رسالت ﷺ کے فتوے لگائے تھے اس لئے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے کوئی بھی عالم دین تیار نہیں ھو رھا تھا۔ حتی کہ خود گورنر ھاؤس کی سرکاری مسجد کے  سرکاری امام، بادشاھی مسجد کے سرکاری امام آزاد صاحب سے حکومت نے جنازہ پڑھانے کی درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ ھمیں ملازمت سے نکال دیجئیے ھمیں منظور ھے لیکن ھم اس کی نمازہ جنازہ نہیں پڑھائیں گے۔  اس پر ایک نامعلوم مولوی صاحب افضل چشتی کو نماز جنازہ کے لئے راضی کیا گیا جسے آج بھی کوئی نہین جانتا۔

No comments:

Post a Comment